دکھ کی باتیں 

ایک خوبصورت شعر ہے”وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا“یہ جو آ ج ہم زندگی کے ہر شعبے میں پسماندگی کا شکار ہیں یہ راتوں رات ہم پر نازل نہیں ہوئی اس کیلئے وہ تمام حکمران برابر کے ذمہ دار ہیں جو اس ملک پر وقتاً فوقتا حکومت کرتے آئے ہیں ان کے نام گنوانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ عوام ان کو بخوبی جانتے ہیں یہ حکمران اگر ٹھیک ہوتے تو آج اس ملک کی 22 کروڑ آبادی میں 9 کروڑ کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر نہ کر رہے ہوتے آج تقریباً 2  کروڑ پاکستانی اپنے گھروں میں بیت الخلا ء سے محروم نہ ہوتے اور آج سکول جانے کی عمر کے تقریبا ً تین کروڑ بچے سکول جانے کی سہولت سے محروم نہ ہوتے،ہمارے ہاں ایک ہزار زندہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 56 فیصد شیر خوارگی کی عمر میں ہی مر جاتے ہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ جو لوگ مندرجہ بالا عوامی محرومیوں پر آج کل حکومت وقت پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں وہ بذات خود ان کمیوں کیلئے کافی حد تک ذمہ دار ہیں کیوں ماضی قریب میں کل تک تو وہ خود صاحب اقتدار تھے چند گھنٹوں بعد آزاد کشمیر میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور وہاں کی سیاسی فضاء مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات سے کافی مکدر ہوچکی ہے، ایک دوسرے پر بہتان تراشی کرنا دنیا کا سب سے آسان ترین کام ہے،آپ نے ایک عجیب بات ضرور نوٹ کی ہوگی اور وہ یہ ہے کہ ہمارا ہر سیاستدان ملک کو درپیش مسائل کا اپنے جلسوں میں اپنی تقریر کے دوران ذکر کرتا رہتا ہے پر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس کی نظر میں اس کا حل کیا ہے ایک مشہور برطانوی فلسفی نے ایک مرتبہ برطانیہ کے نا قابل اعتبار موسم کے بارے میں کہا تھا کہ ہر شخص اس موسم کی شکایت کرتا ہے پر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اسے کیسے ٹھیک کیا جائے ہماری مثال بھی ایسی ہی ہے یہاں پر ہمیں ایک قصہ یاد آیا ایک مرتبہ ایک مصور نے اپنے ہاتھ سے ایک خوبصورت خاتون کے چہرے کی پینٹنگ بنا کر اس کی تصویر کو شہر کے چوک میں رات کے وقت رکھ دیا اور اس کے نیچے یہ لکھ دیا کہ اگر کسی شخص کو اس پینٹنگ پر کوئی اعتراض ہو تو اپنے ہاتھ سے اسے ٹھیک کر دے دوسرے دن اس نے دیکھا کہ کسی نے اس پینٹنگ میں اس خاتون کے ناک کو دوسری طرح سے بنا دیا تھا تو کسی نے اس کی آنکھوں میں رد و بدل کر دیا تھا،مختصر یہ کہ ہر ایک نے اپنی سوچ کے مطابق اس پینٹنگ میں کانٹ چھانٹ کر کے اسے مسخ کر کے رکھ دیا تھا اس مصور نے دوسری رات شہر کے چوک میں ایک خالی ڈرائنگ بورڈ رکھ دیا اور اس کے نیچے یہ لکھ چھوڑا کہ جو کوئی بھی اس کی پہلے والی تصویر سے بہتر تصویر اگر بنا سکے تو اس بورڈ پر بنا دے اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب دوسرے روز اس نے دیکھا کہ اس ڈرائنگ بورڈ پر کسی نے بھی کوئی تصویر نہیں بنائی تھی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تنقید براے تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی اگر کسی کے پاس کسی مسئلے کا بہتر حل موجود ہو تو وہ اسے لوگوں کے سامنے لائے،اگر اس کے پاس کوئی بہتر آپشن نہیں تو حکومتی پارٹی کی تجویز کو مسخ تو نہ کرے،اسلام آباد کے نئے ایئرپورٹ کو بنے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور اگلے ساون کی پہلی جھڑی سے ہی اس کی چھتیں ٹپکنے لگیں جس کی وجہ سے کروڑوں روپے کے سامان کو نقصان پہنچا یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ایسا ہوا ہے ابھی چند ماہ قبل بھی اسی قسم کا ایک واقعہ ہو چکا ہے،اس واقعے پر اس ملک کے کسی بھی باسی کو حیرت اس لئے نہیں ہوئی کہ اس ملک میں بدقسمتی سے کرپشن اپنے عروج پر ہے جس کا پھر منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کام کے معیار پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے جب سیمنٹ کی جگہ بجری کا استعمال ہو گا تو پھر بارش کا پانی چھتوں سے تو خوا مخواہ ٹپکے گا۔