رنگ بدلتے سیاسی حالات۔۔۔۔۔۔۔

چین کے صدر کا اگلے روز اچانک تبت کے دورے پرجانا ایک غیر معمولی بات تھی‘ تا دم تحریر امریکہ یا بھارت نے اس پر کسی شدید رد عمل کا اظہار تو نہیں کیا پر یہ دونوں ممالک تبت کو بھارت کا اٹوٹ انگ تصور کرتے ہیں عین ممکن ہے کہ اس تحریر کے چھپنے تک ان کی طرف سے بیان بازی کا کوئی سلسلہ شروع ہو جائے چین کا روزاول سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ تبت چین کا حصہ ہے جسے فرنگیوں نے زور زبردستی میکموہن لائن مار کر چین سے کاٹا تھا۔ماو زے تنگ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ تبت چین کے ہاتھ کی ہتھیلی ہے جس کی پانچ انگلیوں کے نام ہیں لداخ سکم نیپال ارونا چل پردیش اور بھوٹان۔ تبت بھارت کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ بر صغیر کی طرف آنے والے تمام دریاؤں کا منبع تبت ہے اس بات میں تو کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ تبت کا موجودہ دلائی لامہ بھارت میں،1959 سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے جہاں اس نے سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور امریکہ کے ساتھ بھی قریبی رابطے میں ہے۔ اس کی عمر 86 برس ہے دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہو گی اگر مستقبل قریب میں اس کی جگہ چین کا نامزد کردہ کوئی نیا دلای لامہ آ جاتا ہے اس صورت میں تو پھر تبت خود بخود چین کا حصہ بن جائے گا۔ یہ جو اگلے روز چین کے صدر نے تبت کا دورہ کیا ہے یہ گزشتہ 30 برسوں میں کسی چینی صدر کا تبت کا پہلا دورہے اور سیاسی مبصرین اسے بڑی اہمیت دے رہے ہیں اگر ایک طرف چینی صدر کا حالیہ دورہ تبت نہایت ہی سیاسی اہمیت کا حامل تھا تو دوسری طرف یہ خبر بھی کافی اہم ہے کہ افغانستان کا سپہ سالار یعنی افغانستان کی فوج کا کمانڈر انچیف جنرل ولی خان احمدزئی عنقریب بھارت کا دورہ کر رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ طالبان کے مقابلے میں افغان حکومت کی مدد کرنے کا مطالبہ کرے۔یہ صورت حال خطرے سے خالی نہیں اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ بعض سیاسی قوتیں یہ چاہتی ہی نہیں کہ اس خطے میں امن آئے اس دوران یہ خبر بھی اہم ہے کہ طالبان نے یہ تجویز پیش کر دی ہے کہ وہ سرنڈرہونے کو تیار ہیں بشرطیکہ افغان صدر استعفے دے دیں اور ایک عبوری حکومت افغانستان کا نظم و نسق سنبھال لے اور وہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ باہمی مشاورت کے بعد آئین مرتب کرے جس کے تحت افغانستان میں الیکشن کروائے جائیں ہماری دانست میں اس تجویز کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے یہ درست ہے کہ افغانستان کے تمام باسیوں کو ایک پیج پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے پر اس تجویز کو آزمانے میں حرج ہی کیا ہے اشرف غنی اور ان کی کابینہ کے ارکان کو بھی اب انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے اور اپنے ملک کے عظیم تر مفاد کیلئے اپنے عہدوں سے استعفی دے کر افغانستان کے تمام سیاسی حلقوں کی مشاورت سے ایک عبوری حکومت کے قیام میں مدد کرنی چاہئے تاکہ افغانستان اس مخمصے سے نکلے جس کا وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے شکار ہے اور جس کی وجہ سے نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے کا امن تاراج ہو کر رہ گیا ہے تازہ ترین رپورٹس کے مطابق افغانستان حکومت کا یہ دعوی ہے کہ اس کی نشاندہی پر امریکہ طالبان کے ان ٹھکانوں پر بمباری کر رہا ہے کہ جو طالبان کا مرکز ہیں اور جہاں سے وہ افغانستان حکومت کے خلاف جنگ کی کاروائیوں کی پلاننگ کرتے ہیں اب تک یہ تو نہیں پتہ چل سکا کہ امریکہ اپنی فضائیہ کے ذریعے طالبان پر جو حملے کر رہا ہے اس کے جہاز کہاں سے اڑان بھرتے ہیں عام تصور البتہ یہ ہے کہ مشرق وسطی میں ایسے ممالک موجود ہیں کہ جہاں امریکی فضائیہ موجود ہے اور افغانستان پر بمباری کرنے میں وہاں سے اگر امریکی فضائیہ کے بمبار طیارے اڑان بھریں تو وہ ان کو نزدیک ترین رستہ پڑتا ہے۔