اہم قومی و بین الاقوامی معاملات۔۔۔۔

اس وقت وطن عزیز کو بین الاقوامی معاملات میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے جس میں بڑا مسئلہ افغانستان میں بدلتے حالات ہیں، جو تیزی کے ساتھ ایک بار پھر خانہ جنگی کی طرف جار ہے ہیں اور اس کے پاکستان پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ افغانستان پاکستان کو وہ پڑوسی ملک ہے جس کا تجارت اور بندرگاہ کیلئے پاکستان پرانحصار  ہے اگر چہ متبادل کے طور پر ایران بھی موجود ہے تاہم وہ راستہ افغان تاجروں کو مہنگا پڑتا ہے۔ اس لئے پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو یہ سہولت خلوص نیت سے فراہم کی ہے تاہم بد قسمتی سے دوسری طرف افغانستان میں کچھ مخصوص حلقوں میں پاکستان کی مخالفت ایک فیشن کی صورت موجود ہے اور وہ اس مقصد کیلئے موقعے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح اور سیکورٹی ایڈوائز حمد اللہ محب ایسے ہی افغان رہنماؤں میں سے ہیں جو پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش رہتے ہیں اور جہاں امراللہ صالح کی طرف سے پاکستان پربے بنیاد الزامات لگائے گئے وہاں گزشتہ دنوں حمد اللہ محب نے ننگرہار میں ایک اجتما ع سے خطاب کے دوران پاکستان کے خلاف جو الفاظ استعمال کئے اس نے ہر پاکستانی کے جذبات مجروح کئے۔ افغان سیکورٹی ایڈوائزر وہی شخص ہے  جس  کے بارے  میں پاکستان کے وزیر خارجہ نے کچھ عرصہ قبل یہ بیان دیا تھا کہ اس نے پاکستان کے خلاف  جو الفاظ استعمال کیے  ہیں انہیں سننے کے بعد کسی پاکستانی کا دل نہیں چاہے گا کہ وہ اس سے ہاتھ تک  ملائے۔ دوسرا اہم معاملہ عالمی سطح پر گروپ بندی کا سامنے آنا ہے اور ایک بار پھر دنیا سرد جنگ کی طرف جانے لگی ہے۔ جہاں ایک بلاک کی قیادت ماضی کی طرح امریکہ کے پاس ہے جبکہ دوسری طرف سوویت یونین کی جگہ، رو س اور چین نے لے لی ہے۔ دونوں ممالک نے مل کر امریکہ کی یونی پولر پالیسیوں کی مخالفت شروع کی ہے اور اس سلسلے میں کافی آگے بڑھ گئے ہیں۔ معاشی طور پر جہاں چین نے امریکہ کا راستہ کئی مقامات پر روکا ہے وہاں روس دفاعی طور پر اب بھی ایک اہم طاقت ہے اور کئی مقامات پر اس کا بھی امریکہ سے آمنا سامنا ہے۔ اب دیکھا جائے تو پاکستان کی پوزیشن اس حوالے سے نازک ہے۔ چین ہمارا پڑوسی اور سٹریٹیجک پارٹنر ہے تو دوسری طرف امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا اور جب مشکل پڑی تو پاکستان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ آج حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم دو کشتیوں میں میں سوار نہیں ہو سکتے آج کی  اس بائی پولر bipolarدنیا  میں یا تو ہم کو امریکہ کے گروپ میں کھڑا ہونا پڑے گا اور یا  پھر دوسرے گروپ میں کہ جس کی قیادت چین اور روس کر رہے ہیں۔اس لیے ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوئے ہمیں  اپنے دو عظیم ہمسایہ ممالک چین اور روس کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہوگا کہ اسی میں اس ملک کی سیاسی بقا مضمر ہے۔ ہماری سلامتی اور بقا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ آج کے حالات کے تناظر میں چین کے ساتھ ہم یکسوئی کے ساتھ اپنے تعلقات مزید وسیع کرتے جائیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سی پیک جیسے منصوبوں میں چین کے ساتھ شراکت کے بعد ہمارے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم پھر امریکہ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں۔ اس وقت جو صورتحال درپیش ہے اس میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو اہم قومی امور پر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ افغانستان میں نازک حالات کا بھی تقاضا ہے کہ پاکستان میں ہر معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے چاہے وہ افغانستان سے مہاجرین کی ممکنہ آمد ہے یا پھر اس کے نتیجے میں پڑنے والا معاشی دباؤ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ افغانستان میں امن کا قیام یوں تو پورے خطے کے لئے ضروری ہے تاہم پاکستان پر اس کے اثرات دور رس اہمیت  کے حامل ہیں اس لئے تو پاکستان میں افغانستان میں قیام امن کے لئے جس قدر کوششیں کی ہیں اور اب بھی کرر ہا ہے اس کی شائد ہی کسی اور ملک کی صورت میں مثال سامنے آئے۔ اب افغانستان میں صورتحال کچھ ایسی بن رہی ہے کہ طالبان ایک بار پھر مختلف علاقوں میں پیش قدمی کر رہے ہیں اور افغان حکومت سخت مشکل میں ہے اور اسے ایک بار پھر امن وامان کے حوالے سے سخت چیلنجز درپیش ہیں پاکستان نے سرحدات پر باڑ لگا کر اگرچہ اپنے آپ کو کسی حد تک محفوظ رکھا ہے تاہم اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔