مکافات عمل۔۔۔۔۔

اگر تو اپوزیشن کی دانست میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے کوئی بہتر طریقہ کار ہے تو وہ قومی اسمبلی میں اسے بلیک اینڈ وائٹ میں بحث کیلئے پیش کرے بجائے اس کے کہ اس معاملے میں وہ کسی مزید لیت ولعل کا مظاہرہ کرے کہ اس کے اس طرز عمل سے وہ عوام کی نظروں میں مزید گر سکتی ہے یہ جو ہر الیکشن کے بعد ہارنے والی سیاسی پارٹی میں نہ مانوں میں نہ مانوں کی رٹ لگاتی ہے اس سے اس ملک کا عام آدمی تنگ ا ٓچکا ہے ایک تو ہمارے ہاں اس قسم کی سیاسی اقدار کا اس قدر فقدان ہے کہ ہارنے والا شاذ ہی جیتنے والے کو مبارک باد دیتا ہے بلکہ وہ الٹا اس پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ دھاندلی سے جیتا ہے نہ جانے ہم میں اچھی سیاسی روایات کب جنم لیں گی کم از کم موجودہ نسل کے وقت ایسا تو ہوتا دکھائی نہیں دے رہا روا داری اور اپنے اپ پر سیاسی مخالفین کی تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہم میں بالکل نہیں پایا جاتا اس کی تازہ ترین مثال آزاد کشمیر کا حالیہ جنرل الیکشن ہے جس ہلڑ بازی کا مظاہرہ اس الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران دیکھنے میں آیا وہ قابل افسوس ہے۔ آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن میں نظریہ آ رہا تھامریم نواز نے الیکشن مہم کا بیڑہ اٹھا رکھا تھا اسی لیے انہوں نے ایک لمبے عرصے تک آزاد کشمیر میں مختلف مقامات پر انتخابی جلسے بھی کیے اور ریلیاں بھی نکالیں لگ رہا تھا کہ جیسے شہباز شریف نے اپنے آپ کو اس انتخابی مہم سے علیحدہ کر رکھا ہے اس الیکشن میں نواز لیگ کو جو شکست ہوئی ہے اس سے یقینا نواز لیگ کی سیاسی حکمت عملی پر یقینا اب کئی سوالیہ نشان آٹھ کھڑے ہوں گے پیپلز پارٹی نے بھی اس الیکشن کے دوران کافی محنت کی اور بلاول بھٹو اور آصفہ نے آزاد کشمیر میں کئی مقامات پر جلسے بھی کئے اور ریلیاں بھی نکالیں پر ان کو بھی آزاد کشمیر میں وہ پذیرائی نہیں ملی کہ جس کی وہ توقع کر رہے تھے اگر چہ پیپلز پارٹی نے نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہاں پر ماضی کے مقابلے میں موجود ااپنی سیٹوں میں اضافہ کیا ہے۔ آزاد کشمیر کے اس الیکشن کے نتائج پر البتہ حکومتی پارٹی کو بغلیں نہیں بجانی چاہیں کیونکہ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی بہتر منشور نہ تھا اور ان کا اقتدار میں ماضی کا ریکارڈ بھی کوئی زیادہ تسلی بخش نہ تھا حکومتی پارٹی کیلئے اب زیادہ سے زیادہ اقتدار میں رہنے کا اگر کوئی وقت بچا ہے تو وہ لگ بھگ ایک سال کا وقت ہوگا کیونکہ پانچواں اور آخری سال عموماً الیکشن کا سال ہوتا ہے حکومتی پارٹی نے جو کچھ بھی کرنا ہے اسے آئندہ ایک سال میں کرنا ہوگا اگر تو اس نے اپنے باقی ماندہ اقتدار میں کوئی بہتری دکھائی تو آئندہ الیکشن میں بھی اس کے اقتدار میں آنے کی توقع کی جا سکتی ہے بصورت دیگر اس کا بھی ان پارٹیوں کی طرح حشر نشر ہو جائے گاجو کبھی بہت بہتر پوزیشن میں تھیں۔ ہر انتخابی عمل بہتری کا ایک موقع ساتھ لاتا ہے اور اس میں آنے والے وقتوں کے لئے پالیسی مرتب کرنے اور گزشتہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کا ایک نادر موقع پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے آزاد کشمیر انتخابات میں جہاں تحریک انصاف کی پالیسیوں اور اسکے وعدوں کو ووٹ ملے ہیں اب ان پالیسیوں کو عملی شکل دینا اور ان وعدوں کو جلد تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔اس طرح حزب اختلاف کی جماعتوں کے لئے بھی اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ اگر دوبارہ حکومت میں آنا چاہتی ہے تو ان کو عوام کے دل جیتنے کے لئے سرتوڑ کوشش کرنی ہوگی۔