پاک چین دوستی ۔۔۔۔۔۔

افغانستان کی فوج کے سپہ سالار جنرل ولی خان احمد زئی نے اگلے روز بھارت کا تین روزہ دورہ کرنا تھا واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مقصد یہ تھا کہ وہ بھارت کو یہ باور کرائیں کہ اس نے 2012میں افغانستان کے ساتھ سے ایک معاہدہ کیا تھا جس میں ان دو ملکوں نے یہ طے کیا تھا کہ بوقت ضرورت افغانستان کے کہنے پر بھارت اپنی افواج افغانستان بھجوا سکتا ہے یہ دورہ گزشتہ پیر کے دن اچانک کینسل کر دیا گیا اور سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ اس دورے کو ملتوی کرنے کے پیچھے امریکہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے ہے کیونکہ واشنگٹن بھارت کو طالبان کے خلاف اتنا استعمال نہیں کرنا چاہتا کہ جتنا وہ اسے چین کے خلاف بھرپور طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان کے اندر حالات دن بدن موجودہ حکومت کے ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں۔ ادھر امریکہ اس بات پر نالاں ہے کہ اس کے وزارت خارجہ کی ڈپٹی سیکرٹری شرمن سے چین کی وزارت خارجہ کے حکام نے حالیہ ملاقات میں تلخ رویہ اختیار کیا اوران کے ساتھ ملاقات میں چین نے اپنی وزارت خارجہ کے جونیئر افسران کو نامزد کیا کہ جو ان کے منصب کے تقاضوں کے شایان شان نہ تھا۔ جتنے دوراندیش چین کے حکمران ثابت ہوئے ہیں اتنے شایدہی کسی اور ملک کے حکمران ثابت ہوئے ہوں خوش قسمتی سے روز اول سے ہی یعنی 1949   کے سرخ انقلاب کے بعد سے ہی چین کو یکے بعد دیگرے ایسے حکمران نصیب ہوئے کہ جو بڑے دور اندیش تھے۔ جس دور میں اس وقت کے سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ چل رہی تھی یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے لے کر سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے تک کے عرصے میں چین سائیڈ لائن پر کھڑا خاموشی سے تماشہ دیکھتا رہا اس نے حتی الوسع یہ کوشش کی کہ وہ اپنے آپ کو بین الاقوامی قضیوں اور جھمیلوں سے بچائے رکھے ماو زے تنگ سے لے کر موجودہ چینی صدر تک تمام حکمرانوں کی یہ کوشش رہی کہ سب سے پہلے وہ اپنے اندرونی حالات درست کریں ان کو بے ہنگم مادر پدر آزاد تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ درپیش تھا وہ انہوں نے ایک نہایت بہترین حکمت عملی سے حل کیا چینی قیادت کو احساس تھا کہ جب تک ان کی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوتی جب تک وہ ملک میں تعلیم عام نہیں کرتے جب تک وہ زراعت کے معاملے میں خود کفیل نہیں ہوتے جب تک وہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہرہ ور نہیں ہوتے جب تک وہ ملک میں معاشی مساوات رائج نہیں کرتے نہ امریکہ ان کو گھاس ڈالے گا اور نہ ہی کوئی اور ملک ان کی کوئی بات سنے گا امریکہ نے اس دوران لاکھ کوشش کی کہ وہ چین کو کسی نہ کسی قضیے میں الجھا کر اس کی انرجی ضائع کرے اور اس کی توجہ بانٹے پر کمال ہوشیاری اور دور اندیشی سے اس نے اپنے دامن کو کسی جھگڑے میں الجھنے نہ دیا آج یہ عالم ہے کہ چین اس پوزیشن میں آ چکا ہے کہ وہ کسی ملک سے ڈکٹیشن لینے کی بجائے اسے ڈکٹیشن دیتا ہے یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ چین نے بھارت کیساتھ ہمارے تمام قضیوں اور مسائل میں پاکستان کی غیر مشروط حمایت کی ہے اور ہر موڑ پر ہمیں ایک ڈھارس دی ہے چین کی قیادت کی دور اندیشی کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت ہو سکتا ہے کہ جن دنوں ہم امریکہ کے بلاک میں تھے ان دنوں بھی چین نے غیر معمولی صبر کا مظاہرہ کیا اورپاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دیا اور اب کئی دہائیوں کے بعد یہ تعلقات ایک ٹھوس سٹریٹیجک پارٹنرشپ میں بدل چکے ہیں اوراس وقت بھی افغانستان سمیت کئی اہم معاملات پر چین اور پاکستان کا یکساں موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ پاک چین دوستی لازوال ہے۔