اسلامیہ کالج کا المیہ۔۔۔۔

اسلامیہ کالج کو سال2008ء میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا قدیم درسگاہ کے سابق گریجویٹ علی محمد جان اورکزئی نے جو اس وقت خیبرپختونخوا کے گورنر تھے تاریخی خیبریونین ہال میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے قیام اور ساتھ ہی50 کروڑ روپے ابتدائی گرانٹ کا اعلان کیا تھا اس تقریب میں راقم بذات خود بھی موجود تھا جنہوں نے اسی وقت دل ہی دل میں یہ رائے دی تھی کہ اسلامیہ کالج کو اسلامیہ کالج ہی رہنا چاہئے تھا یونیورسٹی کا درجہ دینا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ مستقبل قریب میں کئی مسائل جنم لینے کا بھی سبب بنے گا اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا دراصل پشاور یونیورسٹی ایک جنرل یونیورسٹی ہے اور اسلامیہ کالج اس کا جنرل کالج تھا ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم و تدریس اس وقت بھی یہانپر دی جاتی رہی اور اب بھی ہے محض بی ایس مخلوط پروگرام کا اجراء کرکے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کے نتیجے میں جتنے مسائل سامنے آئے وہ سب کے سامنے ہیں یہ بات اپنی جگہ کہ بعض لوگوں نے یونیورسٹی کے قیام کیلئے دوڑ دھوپ اور تگ ودو میں خون پسینہ ایک کردیا تھا جنہیں باگ ڈور ملنے والی تھی یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے اعلان کیساتھ 50کروڑ گرانٹ کا جو اعلان ہوا تھا اس کے بارے میں علم نہیں کہ مل بھی گئی یا نہیں البتہ وزیراعظم کی حیثیت سے میاں محمد نوازشریف نے اسلامیہ کالج کے دورے میں ایک بلین اور50 ملین گرانٹ کا جو اعلان کیا تھا وہ سوختہ ہوتے ہوتے اس وقت بچ گیا جب پروفیسر حبیب احمد نے وائس چانسلر شپ کا چارج سنبھال لیا وجہ یہ تھی کہ بقول اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کو وزیراعظم نے ہدایت کی تھی کہ 50ملین گرانٹ جو کہ طلباء اور ملازمین کی فلاح و بہبود کیلئے ہوگی بلاتاخیر فراہم کی جائے لیکن ایک ارب روپے ترقیاتی گرانٹ کو اس وقت تک منتقل نہ کیا جائے جب تک اسلامیہ کالج کی انتظامیہ ترقیاتی منصوبوں کا پی سی ون پیش نہ کرے مگر پی سی ون بنانے والے تھے کہاں؟ یہ تو اللہ پروفیسر حبیب احمد کا بھلا کرے جب وہ آئے تو کرایہ کے ایکسپرٹ کو بلاکر ایک ہفتے تک پشاور یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں بٹھادیا اور تمام ترقیاتی کاموں کے پی سی ون تیار کرکے نہ صرف اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے توسط سے حکومت کوپیش کر دیئے بلکہ اس وقت تک انکے پیچھے لگے رہے جب وزیراعظم کی اعلان کردہ گرانٹ وصول کرکے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد بھی رکھ لیا اس وقت صوبائی حکومت نے بھی ایک بڑے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کیلئے خطیر فنڈ کا اعلان کیا تھا جس کیلئے اسلامیہ کالج کے بعض لوگ پیش پیش رہے پروفیسر حبیب احمد توخیر اب ہم میں نہیں رہے مگر موصوف نے جن ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا اس پر اسکے باوجود تاحال کام جاری ہے کہ اس پر یہ اعتراض بھی سامنے آئے کہ ان عمارتوں کی تعمیر سے اسلامیہ کالج کی شادابی اور ہریالی جو اس تاریخی درسگاہ کی پہچان سے متاثر ہوگی بہرکیف محض بی ایس پروگرام کے اضافے کیساتھ اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی  بنانے  کاجو غیر ضروری قدم اٹھایا گیا اسکے نتیجے میں جگہ یا سپیس کی کمی‘ فیکلٹی کی کمی‘ ٹریفک کا مسئلہ پیدا ہونے اور کئی حوالوں سے ملازمین کی بے چینی جیسے مسائل سامنے آئے مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یونیورسٹی چلانے کیلئے مالی ذرائع اور وسائل کا دستیاب ہونا ناگزیر ہے اور حالت یہ ہے کہ اسلامیہ کالج  کے ذرائع آمدن واگزار کرنے کیلئے تاحال کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف میں مایوسی اور بے چینی مسلسل بڑھتی گئی اور حالت آئے روز ہڑتال دھرنوں اور ریلیوں تک پہنچ گئی۔ابھی حال ہی  کا واقعہ ہے کہ اسلامیہ کالج کے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین ہفتوں احتجاج میں بیٹھے اور مئی کی تنخواہوں سے جون کے تقریباً اختتام تک محروم رہے جبکہ انکے ساتھ مختلف فرمز اور ادارے بھی اپنے بلوں کے حصول کیلئے خوار ہوتے رہے۔ درحقیقت مسائل اور اسکی بنیاد پر ملازمین کے احتجاج کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کے نزدیک تمام مسائل کے حل کی ذمہ دار حکومت ہے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ کچھ نہ کچھ قربانی ملازمین بھی دینگے یہی مسئلہ پشاور یونیورسٹی اور دوسری جامعات کا بھی ہے یہ بات اپنی جگہ کہ اگر حکومت مالی وسائل کی فراہمی میں مطلوبہ اضافہ کرے تو درپیش مسائل کسی حد تک کم بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ملازمین اپنے کچھ الاؤنس یا مراعات سے ہاتھ دھونے کی قربانی کے لئے تیار نظر نہیں آرہے ہیں۔