دنیا خلفشار کا شکار ۔۔۔۔

آپ کو یہ پڑھ کر یقینا تعجب ہواہو گا کہ افغان نیشنل آرمی کو ترکی کی فوج اپنے ملک میں مزید فوجی ٹریننگ دے رہی ہے اور اس ٹریننگ کا اہتمام نیٹو کے تحت کیا گیا ہے اس نئی سیاسی ڈویلپمنٹ سے افغانستان کا بحران ایک نئی شکل اختیار کر گیا ہے یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ترکی اور روس کے درمیان اگر چہ اس وقت بظاہر اچھے تعلقات ہیں تاہم ماضی میں ان کے درمیان تاریخی تنازعات رہے اور جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے آج کل روس اور چین ایک ہی پیج پرہیں۔ اگلے روز بیجنگ میں طالبان کے ایک نو رکنی وفد نے چینی وزیر خارجہ سے جو گفت و شنید کی ہے اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ چین اور طالبان کے درمیان کافی حد تک ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی کا جذبہ موجود ہے۔ کیا ترکی نے افغان نیشنل آرمی کو ٹریننگ دینے کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ اس کے اس فیصلے کو طالبان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔ افغانستان کے کسی بھی اندرونی معاملے میں اس مرحلے پر کسی بھی بیرونی ملک کی کسی بھی صورت میں مداخلت کہ جب اس کے مستقبل کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا افغان بحران کو مزید پیچیدہ کر سکتی ہے۔ ایران کا اس معاملے میں ابھی رد عمل سامنے نہیں آیا جو اپنی جگہ کافی اہمیت کا حامل ہو گا اگر ترکی اس معاملے میں اپنی ٹانگ نہ اڑاتا اور اپنے اپ کو اس قضیئے سے دور رکھتا تو بہتر ہوتا۔ اس اقدام سے مسلم دنیا مزید انتشار کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس سے پیشتر جب ترکی نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد کابل کے ائر پورٹ کے انتظام کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی تو اس پر طالبان نے سخت برا منایا تھا جس پر پھر اسے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا تھا۔دنیا کے کئی علاقوں میں جنگ جیسی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جارجیا اور روس کے تعلقات کشیدہ ہیں اور نیٹو کے 15 ممالک قصدا ًجارجیا میں فوجی مشقیں کر رہے ہیں جو روس کے قریب واقع ہے۔ اذر بائیجان اور ار مینیا کے درمیان حالات کشیدہ ہیں اور ان کے درمیان کسی وقت بھی جنگ چھڑ سکتی ہے جس میں روس آرمینیا کی حمایت میں کود سکتا ہے، اگر افغانستان کا بحران سلجھنے کی جگہ الجھ جاتا ہے تو پاکستان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔اس تمام بحث کا لب لباب یہ ہے کہ اس وقت اگر ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی روس اور چین کیلئے دنیا کے ہر کونے میں مسائل کھڑا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تو دوسری جانب اس کے رد عمل میں روس اور چین بھی اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے تحفظ کیلئے ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیں کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادی کی چالوں کو ناکام بنا سکیں۔ وطن عزیز کے اندر کے سیاسی حالات بھی بڑی تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں حال ہی میں آزاد کشمیر اور پھر سیالکوٹ میں الیکشن جیتنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا مورال بلند نظر آ رہا ہے اس کے برعکس اپوزیشن تحریک اور اتحادکی قوت میں کمی دکھائی دینے لگی ہے۔ واقفان حال کے مطابق کشمیر انتخابات میں ناکامی کے بعدنواز لیگ کو اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہوسکتا ہے اور ایک دوسرے پر اس ناکامی کا ملبہ ڈالنے کے نتیجے میں گروپ بندی سامنے آسکتی ہے کیونکہ شہباز شریف صاحب نے اپنے آپ کو کشمیر اور سیالکوٹ کے الیکشنوں سے دور رکھا۔ ادھر اس قسم کی افواہیں بھی پھیلی ہوئی ہیں کہ شاید مریم نواز کو پارٹی کے اندر اوپر سے اب یہ ہدایت کر دی جائے گی کہ وہ رضا کارانہ طور پر سائڈ لائن ہو جائیں تاہم یہ امر بھی مد نظر رہے کہ عرصہ دراز سے مسلم لیگ ن میں گروپ بندی کی افواہیں تو سامنے آتی رہیں مگر اس کو کبھی عملی شکل نہ مل سکی اب بھی اختلافات کی خبریں محض افواہیں ہی ثابت ہوسکتی ہیں۔ بلاول بھٹو نے کسی بھی وقت عام انتخابات ہونے کی جو بات کی ہے وہ بڑی معنی خیز ہے پر زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ جب تک اس ملک میں ڈیلٹا پلس کی وبا مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتی نئے عام انتخابات کرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ ایسا کرنا عوام الناس کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہو گا ماہرین کے مطابق اس وبا نے اگر کوئی اور شکل اختیار نہ کی تو پھر بھی یہ کسی صورت 2022  کے اواخر سے پہلے ختم ہونے کا نام نہیں لے گی اور تقریبا اتنا ہی وقت پوری قوم کی ویکسی نیشن پر بھی لگے گا بالفاظ دیگر نئے الیکشن کا اعلان اگلے سال کے اختتام پر اگر کیا جاتاہے تو اس صورت میں ان کا انعقاد مارچ 2023 سے پہلے ممکن نظر نہیں آ رہا۔