آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا سکڑ کر رہ گئی ہے اور کسی نے سچ کہا ہے کہ اب تمام دنیا کی مثال ایک گلوبل ویلج جیسی ہو گئی ہے وطن عزیز کی ہی مثال لے لیجئے گا اس کا جغرافیائی محل وقوع ایساہے کہ اگر افغانستان کو زکام لگ جائے تو پاکستان کو چھینکیں آنا شروع ہو جاتی ہیں ادھر عالمی سیاست کا یہ حال ہے کہ خبط عظمت کے جنون میں سپر پاورز نے اپنے علحیدہ علیحدہ گروپس بنا لئے ہیں جو آپس میں دشمنیاں پال رہے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں اپنی توانائی کا استعمال کر رہے ہیں بعض سپر پاورز ان کمزور ممالک کو میلی نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ جن کے پاس قدرتی معدنی دولت کے ذخیرے ہیں وہ ان کو ہڑپ کرنے کیلئے ان کو مختلف طریقوں سیگھیرنے کی کوشش میں ہیں۔ قصہ کوتاہ اس وقت ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے بے چینی ہی بے چینی ہے رولاہی رولا ہے۔ اس خطے کے امن عامہ کے حالات بھی دن بہ دن کشید ہ ہوتے جا رہے ہیں امریکہ کے پرنٹ میڈیا میں کچھ لوگ اپنی تحریروں کے ذریعے افغان حکومت کو بالواسطہ اور بلاواسطہ یہ ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان سے الجھ پڑے بالفاظِ دیگر جنگ شروع کر دے، یہی لوگ افغانستان کے اندرونی مسائل اور ان کی اپنی کوتاہیوں کو ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ امریکی میڈیا کے ذریعے جاری ہے، اب ایسے میں یہ ہمارے سفارتخانے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امریکہ میں کئے جانے والے کسی بھی پروپیگنڈے اور بے بنیاد الزمات کا جواب دے اور پاکستان کی پوزیشن کو واضح کریل۔ یہ زمانہ پبلسٹی اور پراپیگنڈے کا زمانہ ہے پاکستان کے مفادات کے خلاف جو بات بھی چھپے اس کا فوری طور پر اسی زبان میں جواب دینا ضروری ہے یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہمارے سفارتخانے ہر وقت متحرک رہیں اور جن ممالک میں سفیر تعینات ہیں وہاں کے میڈیا کے ارباب اختیار سے ان کے تعلقات نہایت دوستانہ ہوں اور وہ چوبیس گھنٹے ان کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ ادھر افغانستان میں بگڑتی ہوئی امن و عامہ کی صورتحال کے پیش نظر آئندہ چند گھنٹوں کے دوران پاکستان چین امریکہ اور روس پر مشتمل توسیعی ٹرائیکا دوحا میں ایک میٹنگ کا انعقاد کر رہا ہے ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کیلئے روسی صدر کے نمائندہ خصوصی نے آن لائن بریفنگ کے دوران اعلان کیا ہے کہ روس چین امریکہ اور پاکستان پر مشتمل توسیعی ٹرائیکا آئندہ چند روز میں ایک میٹنگ کر رہا ہے جس کیلئے میں اپنے امریکی ہم منصب زلمے خلیل زاد سے فون پر مسلسل رابطے میں ہوں وہ واشنگٹن میں ہیں اور آئندہ چند گھنٹوں میں ان سے اور چینی اور پاکستانی ہم منصبوں سے دوحہ میں ملاقات کا منصوبہ بنا رہا ہوں انہوں نے یہ بھی کہا کہ بیجنگ نے حال ہی میں افغانستان کیلئے اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے جن سے ان کی فوری ملاقات متوقع ہے ان کا کہنا تھا کہ ہم آ پس میں مشاورت کا عمل جاری رکھیں گے اور اس معاملے میں دلچسپی رکھنے والے بین الاقوامی اداروں سے وسیع تر بات چیت کیلئے بھی تیار ہیں۔ یاد رہے کہ روس کی طرف سے اس فارمیٹ کی آخری ملاقات 30 اپریل کو ہوئی تھی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے دوران کسی قسم کی پر تشدد کاروائی نہیں کی جائے گی۔ ادھر ایک دوسری رپورٹ کے مطابق طالبان اور افغان نیشنل آرمی کے درمیان افغانستان کے مختلف صوبوں میں گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے اور طالبان کی کوشش یہ ہے کہ وہ افغانستان کے بڑے شہروں میں اپنی دسترس قائم کر لیں اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ افغانستان مختلف قبائل پر مشتمل ملک ہے اور اس ملک میں دائمی امن صرف اسی صورت ممکن ہے کہ وہاں جو حکومت بھی بنے اس میں ان سب کی مشاورت شامل ہو اور ایسے حالات نہ پیدا کئے جائیں کہ کسی میں احساس محرومی پیداہو۔ وہ زمانے لد گئے کہ جب اسلحے کی زور پرکوئی کسی پر حکومت کر سکتا تھا آج سیاسی طور پر لوگ اتنے با شعور اور بیدارہو چکے ہیں کہ وہ کھرے کھوٹے اور کالے اور سفید میں بہ آسانی تمیز کر سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ کابل میں جو لوگ بھی برسر اقتدار آئیں وہ مندرجہ بالا حقیقت کو مدنظر نظر رکھنے کے بعد اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھیں اور اپنی سرزمین کو کسی بھی دہشت گردی کی کاروائی کیلئے استعمال نہ ہونے دیں کہ صرف اسی صورت میں ہی افغانستان کی بقا ممکن ہوسکتی ہے۔