دنیا جنگ کے دہانے پر۔۔۔۔

اگلے روز ابراہیم رئیسی نے ایران کے نئے صدرکا حلف اٹھا لیا ہے اور خیال یہ ہے کہ مستقبل میں وہ اس منصب پر بھی فائز ہو سکتے ہیں کہ جس پر آج کل امام خامنائی فائز ہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ایران کی نئی انتظامیہ امریکہ کے ساتھ اسی کشمکش کی پالیسی پر چلے گی کہ جس پر گزشتہ چند برسوں سے وہ چل رہی ہے یا ابراہیم رئیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں کوئی رد و بدل کا امکان ہے۔ جب امریکن سی آئی اے کی سازشوں کی وجہ سے انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا اور اس سے 15 ممالک جدا ہو کر آ زاد ملک بن گئے تو اکثر سیاسی مبصرین کے وہم گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ مستقبل قریب میں کبھی روس میں کوئی ایسا رہنما بھی پیدا ہو گا جو سوویت یونین سے بچھڑے ہوئے ممالک کو یکجا کرنے کیلئے اتنی کوشش کرے گا کہ جتنی موجودہ روسی صدر پیوٹن کر رہے ہیں۔ سوویت یونین رقبے کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا پندرہ ممالک کے سوویت یونین سے نکل جانے کے بعد بھی اکیلا روس دنیا میں رقبے کے لحاظ سے اب بھی سب سے بڑا ملک ہے۔ اسی طرح پیوٹن کو اس بات کا سخت قلق ہے کہ امریکہ نے سازشوں کے ذریعے سابقہ سوویت یونین کو توڑ کر وسطی ایشیا میں کئی نئے ممالک کو جنم دیا کہ جو کبھی سویت یونین کا حصہ تھے آج آ رمینیااور آذربائجان آ پس میں مشت وگریباں ہیں ایک کو روس سپورٹ کر رہا ہے تو دوسرے کو ترکی۔ اسی طرح روس کی گردن کے قریب جارجیا میں نیٹو کے ممالک جنگی مشقوں میں مصروف ہیں۔افغانستان میں اگر جنگ کی آ گ طول پکڑتی ہے تو اس کے شعلے وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ دنیا میں ایک سے زیادہ ایسے مقامات ہیں جہاں چھڑنے کے امکانات ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا کے کئی علاقوں کا امن تاراج ہو سکتا ہے۔ ادھر وطن عزیز کو اگر ایک طرف بھارت کی ریشہ دوانیوں کا سامنا ہے تو دوسری جانب افغانستان کی بد امنی سے بھی متاثر ہوتا رہا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ڈیلٹا پلس کی چوتھی لہر نے اس ملک کو ایک اضافی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس سال کے اوائل میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بروقت پاکستان کو خبردار کر دیا تھا کہ یہ بات ممکنات میں شامل ہے کہ امسال جولائی اور اگست میں پاکستان بھی ڈیلٹا وائرس سے اسی قسم کے حالات کا شکار ہو سکتا ہے کہ جس طرح طرح بھارت ہو چکا ہے کئی لوگوں نے اس پیشگی وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا سیاستدانوں کا یہ کام ہوتا ہے یہ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے حساس معاملے میں قوم کی رہنمائی کریں پر ہم نے دیکھا کہ آزاد کشمیر کے الیکشن کی مہم کے دوران جلسوں اور جمگھٹوں کا زور رہا جس کے نتیجے میں اب ڈیلٹا پلس نے زور پکڑا ہے باقی ملک میں بھی عوام نے ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کیا اور اگر یہی صورتحال رہی تو ڈیلٹا پلس اس ملک میں مزید جانیں لے سکتا ہے یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس ملک میں اب بھی ایسے لوگ ہیں کہ جو اس وباء سے بچنے کیلئے ویکسی نیشن نہیں کرارہے پولیو کے قطروں کے بارے میں بعض حلقوں نے پروپیگنڈا کیا تھا بالکل اسی طرح ویکسی نیشن کے خلاف بھی لوگوں کے دلوں میں غیر ضروری شکوک و شبہات ڈال دیئے گئے ہیں کسی نے سچ کہا ہے کہ جہالت سے زیادہ بڑی کوئی بد قسمتی نہیں ہوسکتی۔حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ کورونا وباء نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کثیر سرمایے سے ویکسین بنائی گئیں جنہیں اب دنیا کے زیادہ تر ممالک میں عوام کو لگانے کے لئے فراہم کیا گیا ہے اور ان سے استفادہ کرنا نہایت ضروری ہے۔