ہماری تعلیم کا مستقبل؟۔۔۔۔۔

حقیقت پسند حلقوں کا یہ موقف یکسر رد نہیں کیا جا سکتا کہ اگر صاحب اقتدار چاہتے کہ طلباء کا تعلیمی ضیاع نہ ہو تو کورونا کے دوران بھی تعلیم و تدریس کو جاری رکھنا ناممکن نہیں تھا بشرطیکہ تعلیمی بچاؤ کیلئے کوئی معقول پیکیج دیا جاتا المیہ یہ ہے کہ تعلیمی بجٹ اسکے باوجود دوگنا ہونے کی بجائے نصف کردیاگیا کہ تیسرے چوتھے درجے کے قریب مزدور کارپاکستانی کیلئے موجود ناقابل برداشت مہنگائی کے سبب دو وقت کی روٹی روزی کا حصول بہت مشکل ہوگیا ہے تعلیم‘ علاج‘ رہائش اور بلوں کی ادائیگی تو خیر اب دور کی بات ہے‘ ابھی کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی ملازمین کے احتجاج کی رپورٹنگ میں جب راقم نے الاؤنسز کو ”مراعات“  لکھاتو یونیورسٹی ملازمین برا مان گئے ان کا کہنا تھا کہ یہ مراعات نہیں ہیں بلکہ الاؤنسز ہیں اوریہ ان کا بنیادی اور قانونی حق ہے مطلب یہ کہ مفت تعلیم مفت علاج اور مفت رہائش ان کی ملازمت کے قواعدو ضوابط میں شامل حقوق ہیں مگر جو ہونا تھا وہ ہوگیا یعنی یونیورسٹی اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی اس بات کے باوجود کہ انکے احتجاج کے سبب حکومت نے اپنے مراسلے پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک لیا ہے یونیورسٹی نے ملازمین کے زیر تعلیم بچوں سے کیٹیگری وائز فیسوں کی وصولی مقرر کردی۔کہا جاتا ہے کہ بعض الاؤنسز میں کٹوتی کی منظوری بھی دی گئی حتیٰ کہ فیسوں‘ ہاسٹل چارجز اور شعبہ امتحانات کے واجبات میں اضافے کی باتیں بھی گشت کر رہی ہیں ان میں بعض کا تو باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے کہتے ہیں کہ یونیورسٹی ایک بلین کے خسارے میں ہے لہٰذا اس کیلئے قربانی دینے کی ضرورت ہے جہاں تک قربانی کا تعلق ہے تو اس سے قبل یہ سعادت صرف طلباء کو نصیب ہوا کرتی تھی یعنی انہیں قربانی کا بکرا بنادیاجاتا ہے مگر اب اس میں یونیورسٹی ملازمین بالخصوص درجہ چہارم اور درجہ سوئم کو بھی شامل کیاگیا اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ گریڈ17 اور اس سے اوپر کے ملازمین یعنی اساتذہ اور ایڈمنسٹریٹو کیڈر کو معاف کیا گیا ہے بلکہ ان کے بچوں کی فیسوں کی حد تو مروجہ فیس کے نصف یعنی50فیصد مقرر کی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ  ان کٹوتیوں‘ فیسوں اور واجبات میں اضافے سے یونیورسٹی  کے مسائل کہاں تک حل ہوتے ہیں؟ سوچنے کا مقام ہے کہ تعلیمی ابتری اور مالی بحران کی اصل اور بنیادی وجوہات اور اس کے حل کے حقیقی طریق پر توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ باعث حیرت امر یہ ہے کہ تعلیمی بجٹ میں حسب ضرورت معقول اضافے جبکہ تعلیمی اداروں کی اپنی آمدنی میں اضافے کیلئے نئے ذرائع آمدن ڈھونڈنے کا کوئی نہیں سوچتا۔جواب طلب سوال یہ ہے کہ تعلیمی بجٹ میں اس وقت سوفیصد یا کم از کم50فیصد اضافے‘ یونیورسٹی ملازمین کی پنشن کیلئے ایک خطیر انڈومنٹ کے قیام جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ‘ فیکلٹی اور نان ٹیچنگ سٹاف کی ڈیوٹی اور کارگزاری جانچنے کیلئے ایک موثر نظام لانے کی ضرورت ہے اب ان ضرورتوں اور ذمہ داریوں کو پورا کرنا کس کا کام ہے؟۔