اختلافات کی دنیا۔۔۔۔۔

آج سے کچھ ہی عرصہ پہلے چشم زدن میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا حلیہ ہی بدل ڈالا اس نے مقبوضہ وادی میں جو آئینی ترمیم کی اس کے تحت ہر کسی کو کشمیر میں آباد ہونے کی اجازت دے ڈالی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں نے گزشتہ دو سالوں میں وہاں پراپرٹی خرید کر آباد ہونا شروع کر دیا. اس کا مقصد کیا تھا؟مقصد یہ تھا کہ کشمیر کی ڈیموگرافی ہی بدل دی جائے اور جوں ہی وہاں ہندو غیر کشمیریوں کی آبادی زیادہ ہو جائے وہاں یہ جاننے کیلئے ریفرینڈم کرا دیا جاے کہ کشمیر میں بسنے والے کیا بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں؟اس طرح سے بھارت اپنے مطلب کا الیکشن کا رزلٹ حاصل کر کے دنیا سے یہ کہنے کی پوزیشن میں آ جائے گا کہ اس نے اقوام متحدہ کی 1948 کی قرارداد کے مطابق کشمیر میں استصواب رائے کرا کر اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے یہ بڑی خطرناک سیاسی پیش رفت ہے حیرت یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹایا بھارت کا جاسوس کلبھوشن رنگے ہاتھوں پاکستان میں پکڑا جاتا ہے اور اقبال جرم بھی کر لیتا ہے ہر اس کے باوجود اس کی گلوخلاصی کیلئے بھارت عالمی انصاف کی عدالت کا رخ کرتا ہے اور دوسری طرف کشمیر میں بھارت منددجہ بالا آئینی تر میم کے خلاف احتجاج کرنیوالے مسلمان کشمیریوں کو خون میں نہلاتا ہے اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہیایک لمبے عرصے کے بعد بھارت کے افغانستان میں پاؤں اکھڑتے نظر آ رہے ہیں بھارتی حکومت ہاتھ پیر مار رہی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اسے افغانستان کے ایوان اقتدار میں اسی طرح کی رسائی مل جائے کہ جس طرح اب تک اسے ملی تھی۔ کیونکہ چین اور بھارت آج کل ایک دوسرے کے بیری ہیں روس اور بھارت میں بھی ایک عرصے سے دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں لگ یہ رہا ہے کہ مودی سرکار نے اپنے تمام انڈے صرف امریکہ کی باسکٹ میں رکھ کر ایک بہت بڑی سیاسی غلطی کی ہے جس سے چین اور بھارت کی پہلے سے ہی موجود دشمنی میں مزید اضافہ ہوا ہے جو آج بھارت کو بڑا مہنگا پڑ رہا ہے اور اس نے نئی دہلی کو اس خطے میں تنہا کر کے رکھ دیا ہے۔دوسری طرف ایران میں سید ابراہیم رئیسی نے صدارت کا عہدہ سنبھال لیا ہے ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ امریکہ کو امور خارجہ میں کافی ٹف ٹائم دیں گے۔ چلتے چلتے یہاں کرد kurd قبائل کا بھی ذکر ہو جائے کہ ان کی وجہ سے بھی ترکی ایران عراق اور شام میں کافی امن عامہ کے مسائل وقتاً فوقتاً اٹھتے رہتے ہیں ایک پرانا مقولہ ہے کہ کردوں کا پہاڑوں کے علاوہ کوئی دوست نہیں ہے پہلی جنگ عظیم کے بعد جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو اتحادی ممالک نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کردوں کو ایک علیحدہ ملک دیا جائے گا آج تک اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا کرد ترکی میں بھی آباد ہیں‘ ایران میں بھی رہتے ہیں اور ان تینوں ممالک میں کرد آبادی مزاحمت کرتی آرہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علاقائی تنازعات کو ختم کئے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا چاہے وہ فلسطین کامسئلہ ہے یا پھر کشمیر کا۔دنیا کے پائیدار امن کیلئے ضروری ہے کہ اقوام کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والے مسائل کو فوری طور حل کیا جائے۔