اقتدار کی جنگ۔۔۔۔۔۔

ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں اقتدار کی جنگ جاری ہے اس جنگ میں شامل تمام سیاسی اور عسکری گروپس یہ بات اپنے پلے باندھ لیں کہ جس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے وہ کوشاں ہیں وہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی قومتیوں کی دھرتی ہے اس میں ایک سے زیادہ بولیاں بولنے والے بستے ہیں انکے سیاسی نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ان سب کو اس وطن میں رہنے کا پورا حق ہے کہ جس میں انہوں نے اپنی آنکھ کھولی ہے جمہوریت کا تو تقاضا یہ ہے کہ افغانستان میں اس کے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا آئین بنے کہ جس میں وہاں بسنے والے ہر طبقے اور فرد کو امور زندگی میں برابر کے حقوق میسر ہوں ماضی قریب میں وہاں ہر سیاسی مکتبہ فکر کے لوگ مختلف وقتوں میں ایوان اقتدار کا حصہ رہے ہیں پر خدا لگتی یہ ہے کہ انہوں نے باتیں تو بہت کیں پر وہ ڈلیور نہ کر سکے انہوں نے میانہ روی کے بجاے انتہا پسندی کی روش اختیار کی اور ایک دوسرے کو دلیل سے قائل کرنے بجائے بزور شمشیر مغلوب کرنیکی کوشش کی لاکھوں کی تعداد میں یہ جو افغانی غریب الوطنی کی زندگی غیر ممالک میں گزارنے پر آ ج مجبورہوئے ہیں اس کی اور بھی کئی وجوہات ہوں گی پر اسکی ایک بڑی وجہ افغانستان کے رہنماؤں میں دور اندیشی اور آ پس میں ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہے ہم زیادہ دور نہیں جاتے صرف گزشتہ ایک سو سال کی افغانستان کی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ان میں بادشاہ ظاہر شاہ ہی وہ واحد رہنما نظر آتا ہے کہ جس نے پورے چالیس برس تک افغانستان پر کامیابی سے حکومت کی اور اس کو انتشار سے بچائے رکھا آخر انہوں نے کونسا نسخہ استعمال کیا جو انہوں نے کمال خوبی سے افغانستان میں بسنے والے سیاسی اور قبائلی متحارب گروہوں کو اعتماد میں لیکر اپنے ملک کو ہر قسم کے داخلی انتشار سے بچائے رکھاوہ اپنے آپ کو عوام کے احساسات اور جذبات سے آگاہ رکھنے کیلئے تواتر سے لویہ جرگہ یعنی گرینڈ اسمبلی کا انعقاد کرتے جن میں وہ اپنے آپ کو عوام کے مسائل سے با خبر رکھتے اور اسی حکمت عملی کے ذریعے ان کا ہر وقت عوام کی نبض پر ہاتھ ہوتا یہ تو افغانستان کا قصہ اس دن سے خراب ہوا کہ جب سردار داؤدنے ان کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا وہ دن گیا اور آج کا دن آیا۔افغانستان نے پھر سکھ کا سانس نہیں لیا پر جہاں بادشاہ ظاہر شاہ نے افغانستان کے اندر امن عامہ قائم رکھنے کا نسخہ دریافت کیا وہ وہاں افغانستان کے قدیم قبائلی معاشرے کوجدید دنیا کے مختلف تقاضوں سے ہم آ ہنگ نہ کر سکے ورنہ 40برس کا عرصہ اقتدار بڑا طویل عرصہ ہوتا ہے کہ جس میں بہت کچھ کیا جا سکتا تھا مثال کے طور ہر وہ اپنے ملک کو جمہوریت سے روشناس کرانے کیلئے وہاں الیکٹورل ریفارمز کے ذریعے جمہوری نظام سے روشناس کرا سکتے تھے اسی طرح وہ اپنے ملک میں لوکل گورنمنٹ کی داغ بیل ڈال سکتے تھے وہ آزاد صحافت کوفروغ دے سکتے تھے وہ اپنے ملک میں تعلیم خصوصاً سائنسی تعلیم کی نشو نما کی طرف دھیان دے سکتے تھے وہ افغانستان کو اس وقت کے سوویت یونین میں ہی دھکیلنے کی بجائے ایک غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کی روش اختیار کر سکتے تھے اس طرح بھارت کو وہ اپنے سر پر چڑھانے کی بجائے اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھنے کی خارجہ پالیسی کا تعین کر سکتے تھے وہ اپنے ملک کیلئے صدارتی یا پارلیمانی جمہوریتوں میں سے کسی کا بھی انتخاب کر سکتے تھے اورہر چار سال بعد الیکشن کروانے کی جمہوری روایت قائم کر سکتے تھے۔بادشاہ ظاہر شاہ کے بعد آپ نے دیکھا کہ ایک تھوڑے سے عرصے میں افغانستان نے کتنے حاکم بدلے سردارداؤد، نور محمد ترکی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل، ڈاکٹر نجیب اللہ، حامد کرزئی اور اشرف غنی وغیرہ۔خدا کرے کہ افغانستان کی سختی جلد معاف ہو اور وہاں ایسی حکومت برسر اقتدار آئے کہ جو اس ملک کے لوگوں کے مستقبل کیلئے بہتر ثابت ہو۔