تعلیم کو چار دو ہمارے بہترین اور مستعد منتظم انجینئر سید امتیاز حسین گیلانی کا نعرہ مطالبہ بلکہ سلوگن تھا جسے موصوف نے بذریعہ میڈیا، تعلیمی سرگرمیوں اور اپنی کارکردگی کی بناء پر ایوانوں تک پہنچایا مگر کچھ نہ بن پڑا۔ موصوف گیلانی نے جب سال2004ء میں انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور کی وائس چانسلر شپ کا چارج سنبھالا تو بلاشبہ انجینئرنگ یونیورسٹی کو یونیورسٹی کا درجہ سال 1980ء میں ملا تھا لیکن درحقیقت وہ کالج ہی تھا۔ جامعہ ہندسیہ جب پشاور یونیورسٹی سے علیحدہ کرکے کالج سے یونیورسٹی میں تبدیل کر دی گئی تو کالج کے وہ ملازمین جو پشاور یونیورسٹی کیلئے بھرتی کئے گئے تھے انجینئرنگ یونیورسٹی میں رہ گئے جن میں بعض نے وائس چانسلر سید امتیاز گیلانی کے دست راست کا کردار ادا کیا جن میں پشاور یونیورسٹی کامرس کالج کے محمد سرور خان بھی شامل تھے جنہوں نے بحیثیت رجسٹرار ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی اور ڈائریکٹر فنانس کام کرنے اور بعد ازاں سید امتیاز حسین گیلانی کے رفیق کار کے طور پر انجینئرنگ کالج کو یونیورسٹی بنانے میں اپنا خون پسینہ ایک کر دیا تھا۔ گیلانی صاحب کا نظریہ، مطالبہ اور سعی یہ تھی کہ اگر حکومت کل سالانہ بجٹ کا صرف چار فیصد تعلیم کے لئے مختص کردے تو تعلیمی مسائل حل ہونے کیساتھ ساتھ فروغ تعلیم و تحقیق جبکہ فنی تعلیم کی ترویج و ترقی بھی یقینی ہوسکتی ہے مگرشومئی قسمت کہ ”تعلیم کو چار دو۔ ملک کو سنوار دو“ موصوف کا نعرہ مطالبہ اور کوششیں بے سود ثابت ہوگئیں اور تعلیمی بجٹ زیادہ ہونے کی بجائے کم ہوکر یہاں تک کہ نصف رہ گیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے بحیثیت چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن اعلیٰ تعلیم کے فروغ کا جو مشن شروع کیا تھا جس کے تحت ترقی یافتہ ممالک سے فیکلٹی کی خدمات کا حصول، جامعات میں ریسرچ کلچر کا فروغ، ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ پر مشتمل فیکلٹی کی تشکیل، متعدد سکالر شپ پروگراموں کا اجراء جب کہ جامعات میں جدید لیبارٹریوں کا قیام شامل تھا تقریباً ادھورا رہ گیا۔ یوں چلتے چلتے تعلیمی زبوں حالی اس حد تک پہنچ گئی کہ بیچاری تعلیم کا لاغر اور کمزور وجود کورونا کے ایک وار کا بھی متحمل نہ ہوسکا۔ تو بات ہو رہی تھی تعلیمی بجٹ کو کل قومی بجٹ کا چار فیصد کرنے کے لئے گیلانی صاحب کے وژن اور مشن کی مگر وہ دونوں لاحاصل رہے کیونکہ تعلیم کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی اور پھر کورونا کی آڑ میں تو رہی سہی کسر پوری ہوگئی۔ گیلانی صاحب اگرچہ تعلیمی بجٹ میں اضافے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوئے مگر اتنا تو ضرور ہوا کہ موصوف کے دور میں انجینئرنگ یونیورسٹی حقیقی معنوں میں ایک انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ پی ایچ ڈی فیکلٹی اورطلباء کی تعداد دگنی ہوگئی۔ نئے شعبہ جات اور لیبارٹریاں قائم ہوئیں۔ سمسٹر سسٹم کا اجراء کرکے کامیابی سے ہمکنارکر دیاگیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تقریباً سات ارب روپے کی لاگت سے انجینئرنگ یونیورسٹی جلوزئی کیمپس کا منصوبہ شروع کرکے اسے تقریباًپایہ تکمیل تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ گیلانی صاحب نے تعلیمی بجٹ میں مطلوبہ اضافے کے لئے ہر حکومت‘ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی سے بھی بارہا رابطے کئے۔ اپنا مؤقف بلکہ قوم کی ضرورت کو ایوانوں تک پہنچایا مگر اعلیٰ تعلیمی بجٹ چار فیصد تو دور کی بات دو فیصد تک بھی نہیں پہنچا اور یوں اب حالت یہ ہے کہ اور تو کیا گیلانی صاحب کی اپنی انجینئرنگ یونیورسٹی کی مالی حالت اس حد تک ابتر ہوچکی ہے کہ اکثر اوقات جب تنخواہیں دیتی ہے تو پنشن کے لئے کچھ نہیں ہوتا اور جب اس کا بندوبست ہوجاتا ہے تو پھر الاؤنسز رہ جاتے ہیں۔ انجینئرنگ یونیورسٹی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس کے اپنے ذرائع آمدن نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہرچند کہ کنسلٹنسی کی خدمات کی فراہمی سے یونیورسٹی کثیر سرمایہ کماسکتی ہے۔ مگر کیا کریں کہ اسے یہ موقع بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ اس طرح صوبائی حکومت نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کے تحت صوبے کی پرانی اور نئی جامعات کو گرانٹ کی بتدریج فراہمی کا جو سلسلہ شروع کردیا ہے اس میں بھی انجینئرنگ یونیورسٹی تاحال تقریباً محروم رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سید امتیاز گیلانی نے فروغ تعلیم کے لئے جس مشن کا آغاز کیا تھا اسے جاری رکھنا ہر جامعہ کے منتظم، معلم اور ملازم کی مشترکہ ذمہ داری اور ملک وقوم کی بنیادی ضرورت ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے