جھوٹ کا تریاق۔۔۔۔۔۔۔

انیس سو نوے کی دہائی میں جب سوویت یونین ٹوٹا تو اس کے تسلط سے آزاد ہونے والے ممالک میں بیلاروس بھی شامل تھا اب شنید یہ ہے کہ بیلاروس کے اندر بعض ایسے سیاسی عناصر موجود ہیں کہ جو یہ چاہتے ھیں کہ ان کے ملک کا دوبارہ روس کے ساتھ انضمام ہو جائے۔ روس کے صدر پیوٹن ایک عرصے سے سیاسی طور پر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ سوویت یونین سے آزاد ہونے والے ممالک میں سے جتنے بھی زیادہ ملک دوبارہ روس کے ساتھ انضمام کرلیں اتنا ہی روس کیلئے بہتر ہوگا اس ضمن میں ان کی کوشش کافی حد تک کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ تاجکستان از بکستان ترکمنستان کرغستان ارمینیا اور یوکرائن وغیرہ میں روس اپنا اثر و نفوذ دوبارہ قائم کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔ ادھر دن بہ دن اشرف غنی کی حکومت دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی ہے غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق افغانستان کے موجودہ حکمرانوں نے بھارت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کی طالبان کے خلاف جنگ میں فضائی امداد کرے۔ اگر بھارت نے اس قسم کی غلطی کی تو وہ افغانستان کے اندر ان تمام سیاسی عناصر کی ہمدردی اور اعتماد کھو بیٹھے گا کہ جو افغانستان کے اندرونی معاملات میں کسی بھی بیرونی طاقت کے بالواسطہ یا بلا واسطہ مداخلت کے سر اسر خلاف ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 167  جنگی جہازوں پر مشتمل افغانستان کی جس ائر فورس کو امریکہ نے تشکیل دیا تھا وہ آخر کس مرض کی دوا ہے اسے موجودہ افغان حکمران کیوں استعمال نہیں کر رہے اشرف غنی کو ان کی یہ بات یاد دلائی جا رہی ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا کردے گا تو ان کی حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ از خود حکومت کے دشمنوں کے خلاف کامیابی کے ساتھ جنگ کر سکے اس وقت تمام دنیا حیران و پریشاں ہے کہ آخر سپر پاورز کی اس معاملے میں اس وقت کیا سوچ ہے اگر اسی طرح طالبان حکومت کے خلاف جنگ میں پیش رفت کرتے رہے اور انہوں نے کابل کے ایئرپورٹ تک رسائی حاصل کرلی تو کابل میں موجود دنیا بھر کے سفارت کاروں کی سکیورٹی کا کون ذمہ دار ہوگا ااور افغانستان سے دیگر ممالک کے ساتھ فضائی رابطہ کس طرح ممکن رہ سکے گا ادھر بھارت اور امریکہ کے پس پردہ ایما پر دنیا بھر میں میڈیا کے ذریعے پاکستان کے خلاف ایک منظم مہم شروع کر دی گئی ھے جس میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کریں کیونکہ بقول ان کے پاکستان افغانستان میں دہشت گرد ہوں کی حمایت کر رہا ہے۔اس سے بڑا سفید جھوٹ بولا نہیں جا سکتا تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے فورا بعد یعنی1947سے ہی بھارت نے پہلے افغانستان میں اپنے قدم جمائے اور پھر اسے اپنا مرکز بنا کر پاکستان کے خلاف ایک منظم پرو پیگنڈے اور تخریب کاری کی مہم کا آغاز کیا کہ جو ہنوز جاری ہے ایک تھوڑے سے عرصے میں کہ جب طالبان افغانستان کے حکمران رہے تھے تو ان کے دور میں افغانستان میں بھارت کی دال نہیں گلی تھی اور اس کی پاکستان کے خلاف مہم میں تھوڑی کمی دیکھنے میں آئی ورنہ اس کے علاوہ اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو انیس سو سینتالیس سے لیکر تا دم تحریر بھارت نے ہمیشہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دشمنی کیلئے استعمال کیا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا مقولہ بھارت پر سو فیصد صادق آتا ہے۔ان زمینی حقائق کے پیش نظر ہماری وزارت خارجہ کے حکام کو دنیا بھر میں ایک منظم تحریک چلانی ہوگی جس میں بھارت کے جھوٹ کو دلائل کے ساتھ بے نقاب کرنا ہو گا اور دنیا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ اس خطے میں امن لانے کیلئے پاکستان نے جتنی قربانیاں دی ہیں شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک نے دی ہوں۔