انتشار ہی انتشار۔۔۔۔۔

لیتھووینیا بھی کسی زمانے میں سوویت یونین کا حصہ ہوا کرتا تھا جب 1990 میں سویت یونین ٹوٹا تو وہ بھی اس سے جدا ہو گیا تھا اگلے روز ایک اطلاع کے مطابق اس نے تائیوان کو تسلیم کر لیا ہے جس پر چین نے قدرتی طور پر سیخ پاہونا تھا چنانچہ بیجنگ نے اسے دھمکی دی ہے کہ اسے اپنے اس اقدام کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی یاد رہے کہ چین تائیوان کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ھے جبکہ تائیوان کے ارباب اقتدار امریکہ کی انگشت پر ایک عرصے سے آزاد تائیوان کا نعرہ لگاتے آئے ہیں وہ اپنے آپ کو چین کا حصہ نہیں تصور کرتے یہ اس خلفشار کی تازہ ترین مثال ہے کہ جس کی آج کی دنیا بری طرح سے شکار ہے۔ادھر افغانستان کی صورت حال دن بہ دن ڈانواں ڈول ہوتی جا رہی ہے اب تو کوئی انہونی ہی شاید اشرف غنی کو شکست سے بچا سکتی ہے۔ہو سکتا ہے اس کالم کے چھپنے تک حالات کچھ اور رخ اختیار کر گئے ہوں۔ عجلت میں امریکہ نے جو افغان نیشنل آرمی قائم کی وہ اشرف غنی کے کام نہ آئی۔ لگتا یہ ہے کہ اس کی تربیت میں کہیں نہ کہیں کوئی خامی ضرور رہ گئی تھی ورنہ آج اس کا یہ حشر نشر نہ ہوتا جو ہو رہاہے یہ جو افغان صدر کو روزانہ اپنے آرمی چیف کو تبدیل کرنے کی عادت پڑ گئی ہے یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے اس سے افغانستان کی فوج کا مورال مزید ڈاؤن ہو گیا ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب کوئی بحری جہاز سمندر میں ڈوبنے لگتا ہے تو اس پر سوار جہاز کا عرشہ چھوڑ نے لگتے ہیں کیا افغانستان کے وزیر خزانہ خالد پائندہ کا پہلے مستعفی ہو جانا اور پھر ملک سے چلے جانا اس بات کی غمازی نہیں کر رہا کہ موجودہ افغان حکومت کے اقتدار میں شاید اب دن گنے جا چکے ہیں۔ شنید ہے کہ طالبان نے ازبکوں اور تاجکوں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں اپنے ہمنوا پیدا کر لئے ہیں‘ ان میں اب ازبک اور تاجک بھی شامل ہیں۔ اشرف غنی اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کیلئے اب ازبک اور تاجک برادری کو طالبان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے یاد رہے کہ ماضی میں ازبکوں اور تاجکوں پر مشتمل شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان کئی امور پر اختلاف رہا ہے جسے اب اشرف غنی استعمال کرنے کی کوشش کرے گا نئے امریکی صدر بائیڈن کی اب تک کی پالیسی میں کوئی تسلسل نظر نہیں آیا‘ وہ افغانستان سے نکلنا بھی چاہتے تھے پر نہیں نکلنا بھی چاہتے۔ افغانستان کے بارے میں مرکزی وزیر اطلاعات نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ کرپشن کس طرح ملکوں کو غرق کر دیتی ہے افغانستان اس کی ایک تازہ مثال ہے افغان عوام غربت میں پس رہے ہیں لیکن وہاں کے حکمران ارب پتی ہیں انہوں نے افغان نیشنل آرمی بنانے کیلئے امریکہ سے اربوں ڈالر حاصل کئے اور اس رقم کا ایک بیشتر حصہ وہ خود کھا پی گئے ادھر بھارت میں گزشتہ کئی برسوں سے مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے وہاں پر آباد اقلیتوں کے خلاف جو جار حانہ واقعات رو نما ہو رہے ہیں وہ آج نہیں تو کل بھارت کے ٹوٹنے کا سبب بن سکتے ہیں آج کل تو مودی سرکار کے چیلے بازاروں میں نہتے مسلمانوں کو پکڑ کر مجبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جے شری رام کا نعرہ لگائیں اور اگر وہ یہ نعرہ لگانے سے انکار کرتے ہیں تو بی جے پی کے غنڈے پھر انہیں مار پیٹ کرکے ادھ موا کر دیتے ہیں اور اب ذرا چند سطور ملک کی سیاست کے بارے میں بھی رقم کر دی جائیں تو بے جا نہ ہوں گی۔2021   کا بیشتر حصہ گزر چکا 2023  میں ملک میں نئے انتخابات ہونے ہیں لہٰذا حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس لے دے کے صرف ایک سال یعنی 2022  کا سال رہ جاتا ہے بہتر ہو گا کہ مزید کوئی وقت ضائع کرنے کی بجائے اپوزیشن آئندہ الیکشن کی تیاری کرے اور اسی طرح حکومت بھی اس بچے کچے وقت میں اپنی ان خامیوں کو رفع کرے کہ جن کی وجہ سے وہ اپنے اہداف سو فیصد تک حاصل نہیں کر سکی۔