14 اگست۔۔۔خود احتسابی کا دن۔۔۔۔۔۔۔۔

جشن آزادی منانے کے ساتھ ساتھ 14 اگست کا دن ہر سال ہمیں یہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ ہم اس دن من حیث القوم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم کہاں کہاں ناکام ہوئے چین ہم سے دو سال بعد یعنی انیس سو انچاس میں آزاد ہوا اور وہاں ماو زے تنگ اور چو این لائی جیسے رہنماؤں کی قیادت میں ایک ایسامعاشی اور تعلیمی نظام قائم کیا گیا جو اپنی مثال آپ ہے‘کھیلوں کا میدان ہو یا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی معاشی شعبہ ہو یا صحت عامہ کا غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں چین کی قیادت نے اپنے ملک کو درست خطوط پر استوار کیا ہے اور آج وہ اپنی محنت شاقہ کے ثمرات سے استفادہ کر رہا ہے‘ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ پاکستان نے زندگی کے کسی شعبے میں بھی ترقی نہیں دیکھی کیونکہ ایسا کہنا بھی مبالغہ آرائی ہوگا پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیں جتنی محنت کرنی چاہئے تھی وہ ہم نہیں کر پائے‘قومی ترجیحات کے تعین میں ہم سے کوتاہی ہوئی‘ زندگی کے کئی شعبوں کو ہم نے مکمل طور پر نظر انداز کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج یہ ملک ایک نہیں بلکہ کئی مسائل کا شکار ہے‘آج کا دن خود احتسابی کا دن ہے وہی لوگ انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنے مستقبل کو درست راہ پر چلا سکتے ہیں جو اپنے ماضی پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق لے کر اپنے لئے بہتر مستقبل کی راہ تلاش کریں‘اس ملک کی نئی نسل کئی سوالات اٹھا رہی ہے کہ جن کے تسلی بخش جوابات اسے مل نہیں پا رہے‘آخر ہمارے بزرگوں نے ایسا کیوں کیا کہ ایک لمبے عرصہ تک اس ملک کو وہ ایک ایسا آئین نہ دے سکے کہ جس پر تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق ہو اور قوم کو 1973ء تک اس ضمن میں انتظار کرنا پڑا اس ملک کی کسی بھی سیاسی پارٹی نے ہاریوں مزارعین اور بے زمین کسانوں اور کاشتکاروں کی حالت زار پر غور نہیں کیا اور کسی نے بھی یہ کوشش نہیں کی کہ ملک میں زرعی اصلاحات کر کے فی نفر ہر زمیندار کے پاس صرف ڈیڑھ سو ایکڑ نہری اور 1000 ایکڑ بارانی زمین چھوڑ کر باقی ماندہ تمام زمین کو قومیا کر اسے ہاریوں‘مزارعین اور بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دے‘ ہمارے تقریبا ہر رہنما نے قوم سے یہ وعدہ کیا کہ وہ اس ملک سے غریب اور امیر کے درمیان فاصلوں کو ختم کریں گے ہر ایک پاکستانی سے اس کی آمدنی پر حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جائے گا اور اس کے لئے سب سے پہلے ملک کی معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا‘ہمارے کئی رہنماؤں نے متعدد نعرے بلند کئے پر بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ ان میں سے اکثر رہنما ؤں نے ان پر عمل نہیں کیا‘اس قسم کے نعرے لگانے کا مقصد یہ تھا کہ عوام سے کسی نہ کسی طریقے سے الیکشن میں زیادہ سے زیادہ ووٹ لئے جائیں۔اسی طرح ہم نے اپنے ہمسایہ ملک سوویت یونین کو ناراض کیا پر ہم پر جب 1971ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران بھارت کی طرف سے افتاد پڑی تو اس وقت امریکہ نے ہماری بالکل مدد نہ کی جس کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا‘موجودہ حکومت نے امریکہ کے بارے میں جو موقف اختیار کیا ہے اس پر ثابت قدم رہا جائے‘ اس ملک کے غریب لوگوں کو امریکہ کی قطعاً کوئی پروا ہ نہیں ہے‘ وہ اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں‘ حکومت کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو اچھے رکھنے کے لئے تمام اقدامات کئے جانے چاہئیں۔