افغانستان کے نازک حالات۔۔۔۔۔۔۔

انیس سو سینتالیس سے لے کر یعنی کہ قیام پاکستان سے لے کر کچھ عرصے قبل تک بھارت کی افغانستان کے اندر کافی حد تک موجودگی نظر آتی تھی۔ یہ غالبا پہلی مرتبہ ہے کہ افغانستان میں بھارت کی حالت بڑی پتلی دکھائی دے رہی ہے اور اس کی سفارتکاری کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے کہ جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی بھارت نے افغانستان کے اندر تقریبا ایک درجن کے قریب قونصل خانے کھول رکھے تھے جن میں تعینات بھارتی سفارت کار افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف جاسوسی اور تخریبی کاروائیوں کے واسطے استعمال کرتے تھے۔یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بھارت کبھی بھی افغانستان کا دوست نہیں رہا ہے بلکہ وہ محض یہاں پر اپنا اثر رسوخ قائم کرکے پاکستان کونقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی ہی کرتا رہا ہے اور جب بھی ضرورت پڑی افغانیوں کو اس نے تنہا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ہم یہاں پر جو واقعہ درج کرنے جا رہے ہیں اس سے ہمارے مندرجہ بالا بیانیے کی وضاحت ہو جائے گی نجیب اللہ افغانستان کے صدر تھے اور شمالی اتحاد کے رشید دوستم  ان کے دست راست جب افغانستان کے حالات اسی طرح  خراب ہوئے کہ جس طرح اب ہو رہے ہیں تو نجیب اللہ نے افغانستان سے بھارت جانے کی ٹھانی کہ جہاں انہوں نے اپنی اہلیہ اور بچیوں کو پہلے ہی سے بھجوا دیا تھا فیصلہ یہ ہوا کہ رات کے تین بجے نجیب اللہ نے ایک جہاز میں کابل سے نئی دہلی کی طرف اڑان بھرنی تھی پر ان کا یہ پلان اس لئے کامیاب نہ ہو سکا کہ ایک طرف جہاں بھارت کے مقتدر افراد نے نہایت ہی ڈپلومیٹک انداز میں ان سے معذرت کر لی  وہاں ان کے دست راست رشید دوستم نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ افغانستان کے اندر جن جن علاقوں میں مختلف ترقیاتی کاموں میں بھارت نے سرمایہ کاری کی ہوئی تھی وہ ایک ایک کر کے طالبان کے قبضے میں چلے گئے ہیں جن میں سڑکیں بھی شامل ہیں اور بجلی بنانے کیلئے دریاؤں پر ڈیم بھی افغانستان کی موجودہ قیادت کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا طالبان اشرف غنی عبداللہ عبداللہ یا دوستم جیسے رہنماؤں کو معاف کر دیں گے؟ ادھر انگلستان کے میڈیا نے امریکی صدر بائیڈن کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر مستقبل کا خیال کئے افغانستان سے اتحادی فوجیوں کا انخلا شروع کیا ہے جس کی وجہ سے افغانستان کو ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے بعض سیاسی مبصرین کا تو خیال ہے کہ امریکہ نے جان بوجھ کر افغانستان سے اتحادی فوجوں کو اس لیے نکالا ہے کہ یہ ملک ایک مرتبہ پھر انتشار کا شکار ہو اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں پر بھی اس کا منفی اثر پڑے تاکہ چین اس خطے میں جو عظیم الشان ترقیاتی منصوبے بنانے کا سوچ رہا ہے وہ بری طرح متاثر ہوں تا کہ اس کی معیشت کو بھی زک پہنچے،ایسے حالات میں کہ جب طالبان کابل کے دروازے پر ہیں اور عملاً کابل بھی ان کے قبضے میں آگیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے کہ کابل میں ایک وسیع البنیاد حکومت بنے جو یہاں پر امن قائم کرے اور مستقل حکومت کے قیام کیلئے راہ ہموارکرے۔پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کیلئے جس قدر کام کرنا تھا وہ کر چکا اور اب یہ افغان قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان نازک حالا ت میں دانمشندی اور تدبر کا مظاہرہ کرے تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہو۔