کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ اتنے پرامن انداز میں افغانستان میں انتقال اقتدار ہو گا۔ طالبان نے تا دم تحریر جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور وہ قابل ستائش ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اشرف غنی کے پاس بجز اس کے کوئی رستہ ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر واپس امریکہ چلے جائیں دراصل انہوں نے تو اپنا وطن 1977 میں ہی چھوڑ دیا تھا جب وہ ڈنمارک جرمنی اور انگلستان میں رہنے کے بعد کافی عرصے سے امریکہ میں مقیم تھے ان کی اہلیہ کا تعلق لبنان سے ہے واقفان حال کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکہ سے درخواست کی ہے کہ ان کی امریکی شہریت بحال کر دی جائے جو انہوں نے افغانستان کے صدر کا الیکشن لڑنے کے وقت چھوڑ دی تھی غالب امکان یہی ہے کہ وہ انجام کار امریکہ میں جا کر ہی اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن گزاریں گے ادھر حامد کرزئی کہ جو کم و بیش دس برس تک افغانستان کے صدر رہے ہیں وہ اس وقت افغانستان میں ہی مقیم ہیں۔ امریکہ بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے افغانستان میں گزشتہ اٹھارہ برس کے عرصے میں دو کھرب امریکی ڈالرز خرچ کیے ہیں کیا افغانستان کے عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ یہ رقم کہاں کہاں اور کیسے خرچ کی گئی کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ سابق افغان صدور حامد کرزی اور اشرف غنی اور ان کے حواریوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور امریکہ نے وار آن ٹیرر کے سلسلے میں افغان حکمرانوں کو جو کھربوں ڈالرز دئیے ہیں اس میں سے ایک بڑا حصہ انہوں غیر ممالک کے بینکوں میں جمع کر رکھا ہے اصولی طور پر تو اس پیسے کو واپس لاکر افغانستان کے تباہ شدہ فزیکل انفراسٹرکچر کی بحالی پر خرچ کرنا ضروری ہے بہتر ہوگا اگر افغانستان میں برسراقتدار آنے والی نئی حکومت اس معاملے میں ایک شفاف آ ڈٹ کروائے اور ان سابقہ افغان حکومتوں کے کارندوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں کہ جو اس معاملے میں کسی مالی بد دیانتی میں ملوث پائے جائیں آپ نے یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ اشرف غنی کی حکومت کے چلے جانے پر افغانستان کے عوام نے افسوس کا اظہار نہیں کیا کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں میں جو لوگ افغانستان کے ایوان اقتدار میں براجمان تھے بشمول اشرف غنی انہوں نے افغانستان کے عام آدمی کی بہتری اور فلاح کیلئے رتی بھر کام نہیں کیا اگر انہوں نے ان کی بہتری کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے ہوتے تو آج افغانستان کے لوگ سڑکوں پر ہوتے اور وہ آسانی سے طالبان کو اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے کبھی نہ چھوڑتے طالبان کو یہ بات اپنے پلے باندھ لینی چاہئے کہ ان کو جو اقتدار ملا ہے یا آئندہ الیکشن کے بعد ملے گا وہ ان کیلئے پھولوں کی سیج کی جگہ کانٹوں کا ہارہوگا‘ نئی حکومت کے کاندھوں پر یہ بوجھ بھی ان پڑا ہے کہ وہ افغانستان کو اس خطے میں امن کا گہوارہ بنا دیں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی سپر پاور کو کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت بالکل نہ دے تا دم تحریر طالبان نے سیاسی طور پر حیرت انگیز دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت تحمل اور حوصلے سے کام لیا ہے اور یہ بیانیہ دے کر اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے کے وہ کسی سے بھی انتقام نہیں لیں گے ان کو اچھی طرح پتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک ان کی حکومت کو صرف اسی صورت میں ہی تسلیم کریں گے اگر وہ افغانستان کے اندر ہر رہنے والے بشر کے بنیادی حقوق کا خیال رکھیں گے۔