غلط اندازے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روس کے میڈیا کے مطابق افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کابل سے فرار ہوتے وقت اپنے ساتھ کافی لمبی چوڑی کیش بھی لے گئے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ امریکہ پہنچ جائیں عین ممکن ہے کہ اس تحریر کے چھپنے سے پہلے ہی وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے ہوں۔ ان دنوں طالبان کے متوقع حکومتی ڈھانچے کے حوالے سے چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں جبکہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ طالبان کے اندر ایک مضبوط دھڑا موجود ہے کہ جو اس بات کے خلاف ہے کہ عبوری حکومت میں ان افغان رہنماؤں کوشامل کر لیا جائے کہ کرزئی یا اشرف غنی حکومتوں میں شامل رہے۔ وہ اس بات کے اس لئے مخالف ہیں کہ ان کے نزدیک یہ لوگ ان کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث ہیں‘ اس قسم کی سوچ رکھنے والے طالبان رہنماؤں کا یہ موقف ہے کہ وہ بھلا کس طرح ان لوگوں کے ساتھ عبوری حکومت میں بیٹھ سکتے ہیں کہ جنہوں نے گزشتہ 20سالوں میں ان کے ساتھیوں پر نہایت ہی بے رحمانہ قسم کا تشدد کیاہے اسی طرح افغانستان میں کئی مقامات پر بلیک سائٹس black sitesکے نام سے امریکہ نے کئی عقوبت خانے بنا رکھے تھے کہ جن میں طالبان کو اذیت دی جاتی تھی کئی سیاسی مبصرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ امریکہ طالبان سے انسانی حقوق یا ہیومن رائٹس کا خیال رکھنے کا تو مطالبہ کرتا ہے پر اس کی نظر ان مندرجہ بالا جیلوں کی طرف کیوں نہیں جاتی کہ جو اس نے افغانستان کے اندر اور بیرونی دنیا میں بنا رکھی تھیں اور جن میں وہ گزشتہ بیس سالوں سے طالبان کو پابند سلاسل کر کے انسانی حقوق کو پامال کرتا چلا آ رہا تھا۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ دو ہزار سترہ میں افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے چین کے صدر کو ایک خط لکھا تھا جس میں اس خواہش کا انہوں نے اظہار کیا تھا کہ سی پیک کا دائرہ افغانستان تک بھی بڑھایا جائے تا کہ وہ بھی اس کے ثمرات سے استفادہ کر سکے جب بھارت کو اس خط کی بھنک پڑی تو بھارتی حکومت نے ان پر پریشر ڈالا کہ وہ اس خط کو واپس لے لے اور یا پھر اس پر خاموشی اختیار کر کے مزید کوئی کاروائی نہ کرے چنانچہ اشرف غنی نے پھر اس خط پر کوئی فالو اپ ایکشن نہ لیا۔ اس واقعے کے تذکرے کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان کس قدر بھارت کے اشاروں پر چلتارہا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے بارے میں امریکن انٹیلی جنس اداروں نے جو رپورٹس امریکی صدر کو دی تھیں وہ اکثر غلط ثابت ہوئیں جن کی وجہ سے امریکی صدر بائیڈن کی کافی سبکی ہوئی ہے یہاں تک کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کے ہاتھوں امریکہ کی شکست کے ذمہ دار ہیں اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفے دے دیں کئی۔ سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ امریکہ کے گزشتہ صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حق میں ایک مضبوط ووٹ بنک بنایا تھا جو ٹوٹا نہیں بلکہ آج بھی موجود ہے اور عین ممکن ہے کہ آئندہ صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکی صدر بن جائیں اس وقت طالبان کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں ان کی حکومت بن جانے کے بعد دنیا کے کتنے ملک اسے تسلیم کرتے  ہیں اور یہی وجہ ہے  کہ طالبان کے رہنماؤں نے اپنے پچھلے دور حکومت کے مقابلے میں اب کی دفعہ اپنے طور طریقے میں کافی لچک اور اعتدال کا اب تک مظاہرہ کیا ہے جس کے یقینا مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔