کابل میں تبدیلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طالبان دھیرے دھیرے افغانستان کا نظم و نسق سنبھال رہے ہیں اور ابھی تک انہوں نے کمال خوبی سے امور مملکت چلانے میں حیرت انگیز حوصلے اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اگر وہ مستقبل میں بھی اسی روش پر چلتے رہے تو افغانستان آئندہ چند برسوں میں اس خطے میں ایک خوشحال ملک بن کر ابھرے گا گو بھارت کی یہ بھر پور کوشش ہو گی کہ وہ طالبان کی قیادت کو اپنے جام میں اتارے اور سر زمین افغانستان کو ایک مرتبہ پھر پاکستان دشمن سازشوں کیلئے استعمال کرے پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ جین کے ساتھ نہایت ہی خوشگوار تعلقات ہیں اور چین عنقریب دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ کئی ممالک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور جوں ہی طالبان اپنی کابینہ کو آخری شکل دیتے ہیں انہیں تسلیم کرنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نہایت خراب ہیں اور واشنگٹن پاکستان کو زچ کرنے کے واسطے مختلف قسم کے ہتکنڈے استعمال کرے گا ایک طرف اس نے ہمارے سر پر FATF کی اگر تلوار لٹکا رکھی ہے تو دوسری طرف سے وہ آئی ایم ایف کے ذریعے ہماری گردن مروڑنے کی کوشش کر سکتا ہے۔وہ آج ہم سے بس یہ چاہتا ہے کہ ہم چین کا دم بھرنا چھوڑ دیں اور ون بیلٹ ون روڈ سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کریں، تادمِ تحریر عمران خان نے امریکہ کے مندرجہ بالا مطالبات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اس ملک کے عام آدمی کا دل جیت لیا ہے پر دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ اس معاملے میں امریکہ کا کس قدر پریشر برداشت کر سکیں گے اور کب تک؟ یہ ان کا لٹمس ٹیسٹ litmus test  ہو گا اور امید ہے کہ وہ اس میں سرخرو ہوں گے۔ پاکستان کو نہ تو فیٹف سے ڈرنا چاہئے اور نہ اقتصادی پابندیوں سے۔ اقوام متحدہ میں چین کسی صورت بھی پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانے کی امریکہ کی ہر کوشش کو ویٹو کرے گا اور اگر بلفرض محال امریکہ یکطرفہ طور پر اس قسم کی کوئی حرکت کرتا بھی ہے تو آج کے حالات میں اپنے عظیم ہمسائے چین کی امداد سے اس پر ہم قابو پاسکیں گے ہمیں یہ بات اپنے پلے باندھ لینی چاہئے کہ بحیثیت واحد سپر پاور امریکہ گے دن گنے جا چکے اس بات میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ یہ اور اگلی صدی چین کی ہی ہے اورہم خوش قسمت ہیں کہ چین کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات پہلے سی موجود ہیں۔ انھیں مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح ہمیں روس کے ساتھ مزید نزدیکی تعلقات بنانے کی بھی ضرورت ہے کئی محب وطن عناصر تو اب ان خطوط پر بھی سوچ رہے ہیں کہ امریکہ کی روز روز کی بلیک میلنگ سے بچنے کیلئے اس خطے میں چین روس پاکستان افغانستان ایران اور ترکی پر مشتمل اگر ایک عسکری اور مالی اتحاد کا وجود عمل میں آ جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ اور دیکھا جائے تو اس کے لئے پہلے سے کافی کام ہو چکا ہے کیونکہ روس پاکستان اور چین کے درمیان کئی طرح کے معاہدات موجود ہیں جن کی رو سے وہ آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ان تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔