افغانستان کے مسائل۔۔۔۔۔۔

گزشتہ چند دنوں میں یکے بعد دیگرے دو تین واقعے وطن عزیز کے امن عامہ کے فرنٹ پر ہوئے جو اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ ہمارے دشمن جو افغانستان میں شکست کے بعد اپنے زخم چاٹ رہے ہیں ابھی تک اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے پہلے انہوں نے اس ملک میں ایک مندر پر حملہ کیا پھر رنجیت سنگھ کے مجسمے کو گرایا تاکہ بھارت کوہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کا تازہ مواد مہیا کیا جا سکے اور اس کے بعد جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کی ایک کاروائی میں ہمارے ایک صوبیدار کو شہید کیا۔ ان ابتداہی کلمات کے بعد ذکر کرتے ہیں افغانستان میں تیزی سے بدلتے حالات کا۔حامد کرزئی عبداللہ عبداللہ اور امر اللہ صالح جو سابقہ افغاں حکومتوں کا حصہ رہے ہیں افغانستان میں ہی مقیم ہیں اور انہوں نے ملک نہیں چھوڑا۔ ان میں سے حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ تو موجودہ حالات میں مثبت کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں اور طالبان کے ساتھ سیاسی ڈھانچے پر مشاورت کرنے والے تین رکنی کونسل میں موجود ہیں جس میں گلبدین حکمتیار بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔ تاہم امراللہ صالح جو اشرف غنی کے دست راست تھے اس نے طالبان کے خلاف مسلح مزاحمت کیلئے پنجشیر کا رخ کرلیا ہے‘ بھارت اور اس کے ہم نواؤں کیلئے یہ ایک گرما گرما موضوع ہے اور بھارتی میڈیا اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہاہے۔ شروع میں یہ خبریں آئی تھیں کہ امراللہ صالح ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں مگر وہ گیا نہیں اور اس کا افغانستان کے اندر ٹھہر جانا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ وہ بھارت کے ایما پر افغانستان کے اندر انتشار پھیلانا چاہتا ہے تاکہ طالبان کے قدم جمنے نہ دیں گے ان کی یہ کوشش رہے گی کہ افغانستان کے اندر خانہ جنگی شروع ہو جائے تاکہ انتشار کی صورت میں چین اس خطے میں سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ جیسے عظیم الشان ترقیاتی منصوبوں کو بروقت مکمل نہ کر سکے طالبان کی حکومت کیلئے غالباً سب سے بڑا مسئلہ ملک کی ڈوبتی ہوئی معاشی صورتحال کو سنبھالنا ہے اس کی جو تھوڑی بہت رقم تھی وہ امریکہ نے منجمد کر دی ہے اور جرمنی نے بھی اس کی مالی امداد پر پابندی لگا دی ہے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ نیٹو میں شامل۔ممالک ہمیشہ اس قسم کی ا قتصا دی پابندیوں میں امریکہ کے نقش قدم پر ہی چلتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں سرکاری ملازمین کو بروقت تنخواہیں دینے اور فوج کے ضروری اخراجات طالبان کی حکومت کیسے برداشت کرے گی ظاہر ہے ابتدائی دنوں میں اسے خواہ مخواہ غیر ملکی امداد پر کچھ عرصے تک تکیہ کرنا پڑے گا اس ضمن میں ہو سکتا ہے طالبان کے رہنما سعودی عرب عرب امارات چین اور ایران کے ساتھ پہلے سے ہی رابطے میں ہوں جن حالات میں طالبان کو افغانستان کی حکومت ملی ہے وہ معاشی طور پر بڑے گھمبیر قسم کے حالات ہیں اور انہیں سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ہم نے پہلے بھی اپنے ایک کالم لکھا تھا کہ طالبان نے افغانستان پر بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ تو کرلیا ہے پر اقتدار ان کیلئے پھولوں کا ہار نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ثابت ہو سکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں جگہ جگہ وار لاڈز کی حکومت تھی جو جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے اور ان کے پاس اپنے اپنے مسلح جھتے بھی موجود تھے ان سب کا اعتماد حاصل کرنے کے بغیر ملک بھر کا نظام چلانا طالبان کے واسطے جان جوکھوں کا کام ہو سکتا ہے۔