افغانستان کے مستقبل کے بارے میں سر دست یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا رواداری برداشت دور اندیشی اور میانہ روی وہ عناصرہیں کہ اگر ان کو طالبان نے اپنی سیاست کا حصہ نہ بنایا تو اب تک میدان جنگ میں انہوں نے جو کچھ حاصل کیا اس پر پانی پھر سکتا ہے طالبان ہم سب سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ ان کا ملک جنگجو قبائلی سرداروں کا گڑھ ہے جن میں ہر ایک کے پاس جدید اسلحہ بھی ہے اور جنگجو مسلح جھتے بھی، اس طرح وہاں مختلف قومیتوں کے لوگ بھی آباد ہیں یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ وہاں کوئی بھی سیاسی گروپ صرف اپنے ہی بل بوتے پر ایک دن بھی چین سے حکومت نہیں کر سکتا اسے لامحالہ مخلوط حکومت کے ذریعے ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے اور حصہ بقدر جثہ کا فارمولا اپنانا ہوتا ہے ظاہر شاہ نے 40 برس سکون سے افغانستان کے بادشاہ کی حیثیت سے اس لئے گزارے کہ اس نے اپنے ملک کی تمام سیاسی اکائیوں کو لویہ جرگہ کی شکل میں یکجا کیا ہوا تھا اور امور مملکت میں وہ ان سے مشاورت کا قائل تھا اگر ایسا نہ ہوا تو افغانستان میں کئی نئے فتنے جنم لے سکتے ہیں اور یہ بات مت بھولئے گا کہ بھارت امریکہ اور افغانستان کے اندر موجود ان کے حواری اسی امید اور تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ افغانستان دوبارہ انتشار کا شکار ہو تاکہ ایک مرتبہ پھر ان کی دال گل سکے ا ٓج طالبان کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک ان کی حکومت کو تسلیم کر لیں اس کام کی تکمیل کئے واسطے جوش کی بجائے ہوش کی ضرورت ہو گی یہ اب کافی حد تک طالبان کی قیادت پر منحصر ہو گا کہ تقسیم اقتدار کے معاملے کو وہ کس طرح حل کرتے ہیں امریکی صدر بائیڈن کی یہ بات بھی بڑی معنی خیز ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو امریکی فوجی جو اس وقت افغانستان میں موجود ہیں وہ 31 اگست 2021 کے بعد بھی وہاں ٹھہر سکتے ہیں اس بیان کا کیا مطلب ہے کیا اب بھی امریکی صدر کو یہ امید ہے کہ وہ افغانستان کے اندر موجود متحارب سیاسی گروپس کو طالبان کے خلاف یکجا کر کے ان کو طالبان کے ساتھ لڑا کر حالات کا پانسہ پلٹ سکتا ہے اور وہاں انتشار پیدا کر کے نیٹو کی افواج کی افغانستان میں مداخلت کا کوئی نیا جواز پیدا کر سکتا ہے شنید ہے کہ اس وقت بھارت کی ملٹری اکیڈمی میں افغانستان کے 150 آرمی کیڈٹس زیر تربیت ہیں اور اسی طرح افغانستان کی پیادہ فوج کے 800 جوانوں کو بھی بھارت اپنی اکیڈیمی میں تربیت دے رہا ہے اب بھارتی حکومت اس مخمصے میں ہے کہ ان افسروں اور جوانوں کے ساتھ کیا کیا جائے ان کا مستقبل کیا ہوگا اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت جڑ پکڑ لیتی ہے تو کیا وہ ان کو قبول کرے گی ظاہر ہے کہ ان کو تو بھارتیوں نے طالبان کے خلاف بھی برین واش کیا ہوگا اور پاکستان کے خلاف بھی ان کے ذہنوں میں نہ جانے کیا کیا ڈالا ہو گا کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی حکومت فورا تسلیم کرلینا چاہئے تھا اور اس معاملے میں لیت و لعل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وزیر اعظم کا یہ موقف بالکل ٹھیک ہے کہ کسی بھی معاملے میں پاکستان کو یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ اس کے کسی قدم سے امریکہ خوش ہوگا یا خفہ۔ پاکستان کو صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے اپنے مفاد میں کیا ہے۔ امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش میں ہم نے پہلے ہی بہت کچھ گنوایاہے اب اس کی مزید گنجائش نہیں رہی۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ