یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ شعبہ تعلیم میں وسیع تر سرمایہ کاری ناگزیر ہوتی ہے جو کہ ہمارے ہاں کسی بھی اور کسی بھی حکومت میں نظر نہیں آئی مگر جواب طلب سوال یہ ہے کہ کیا تعلیمی زبوں حالی کی اصل اور بنیادی وجہ محض پیسے کی کمی ہے؟ یا مالی شفافیت، کفایت شعاری، بہترین اور مؤثر یعنی نظر آنیوالا نظم و ضبط خود احتسابی اور زیادہ سے زیادہ محنت جیسے لوازمات اقدامات اور طرز عمل کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جامعہ پشاور ملک کی قدیم درسگاہوں میں سے ایک ہے جس کا قیام اسلامیہ کالج کے بعد عمل میں لایاگیا جہاں پر چالیس سے زائد شعبہ جات تدریس وتحقیق کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جامعہ پشاور پختونخوا کی واحد درسگاہ تھی مطلب اسلامیہ کالج بھی پشاور یونیورسٹی کا کالج تھا۔ جامعہ نے اپنے علمی سفر کے دوران قومی زندگی کے ہر شعبے کو جو سپوت دئیے بلاشبہ لائق تحسین رہے۔ اس وقت جامعہ مالی طور پر بھی مستحکم رہی کیونکہ پورے صوبے بشمول سابقہ فاٹا کے سینکڑوں تعلیمی ادارے پشاور یونیورسٹی سے منسلک رہے اور یوں ان کے بیچلر اور ماسٹر امتحانات کا انتظام جامع پشاور کے ذمے تھا۔ اس کے عوض جامعہ کو سالانہ کروڑوں روپے ملتے رہے اس طرح ملازمین کی تعداد اس کے باوجود موجودہ تعداد سے کافی کم تھی کہ صوبے کی واحد یونیورسٹی تھی مگر اب؟ میرے مشاہدے کے مطابق پروفیسر ذوالفقار گیلانی سے لیکر پرفیسرمحمد ادریس خان تک جامعہ کے ہر سربراہ نے حتی الوسع کوشش کی کہ یونیورسٹی مالی طورپر مستحکم ہو اور ساتھ ہی انتظام وانصرام میں بھی کوئی کمی نہ رہے یہ کوشش اب بھی کی جا رہی ہے کیونکہ پروفیسرڈاکٹر محمد ادریس کا چارج سنبھالے ہوئے ابھی آٹھ مہینے ہوگئے ہیں۔ بلاشبہ کہ کورونا وباء کے ہاتھوں جامعات کے جلسہ ہائے تقسیم اسناد سمیت تقریباً تمام سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں تاہم بہتر اور مؤثر نظم و نسق کی ضرورت کو کسی وقت نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کیلئے صرف پیسے کا دستیاب ہونا ضروری نہیں بلکہ بہتر نظم و ضبط قاعدہ اور طریق بھی کسی یونیورسٹی کا طرہئ امتیاز اور شناخت ہونی چاہئے جو کہ بدقسمتی سے اب معدوم ہے۔ اس بات پر تو حکومت سمیت سب متفق ہیں کہ کورونا نے تعلیم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایامگر کہنے کی بات یہ ہے کہ کورونا نے یہ کب کہا ہے کہ آپ شجرکاری نہ کریں۔ صفائی ستھرائی کو پس پشت ڈال دیں۔ ٹریفک کیلئے ایک مؤثر اور منظم پلان نہ دیں،لا اُبالی نوجوانوں کی سکریچنگ،ریکارڈنگ اور بلیک سٹیکر کو نظر انداز کریں۔ رکشوں، ٹیکسی اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کو تدریسی شعبہ جات تک رسائی دیں۔ کیمپس کے روڈ نمبر2 کو جی ٹی روڈ بنا دیں۔ غیر ضروری طورپر ہفتے میں دو چھٹیاں کریں اور اس کے باوجود بھی دن ایک بجے نماز اور کھانے کیلئے اٹھنے کے بعد اپنا دفتری کام اپنی خالی کرسی کے حوالے کریں۔ ایسے میں اگر خود احتسابی نہ ہو تو نگرانی، جواب طلبی اور فرض شناسی کتنی ضروری ہوجاتی ہے۔ ہر چند کہ جامعہ کے موجودہ وائس چانسلر کی یہ کوشش لائق تحسین ہے کہ موصوف جامعہ کو ایک بلین روپے خسارے سے نکالنے کی کامیاب سعی کر رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ جامعہ مالیاتی اداروں کے قرضے کے بوجھ سے نکلے اور ساتھ ہی اتنا اضافی سرمایہ بھی ہاتھ لگے کہ غریب کلاس فور اور بیمار ملازمین کو قرض حسنہ دینے کی بھی توفیق نصیب ہوجائے مگر ساتھ ہی ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی کارکردگی کو جانچنا اور پرکھنا بھی ضروری ہوگا۔ یہ بھی لازمی ہوگا کہ جامعہ کے سربراہ اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین اور انتظامی عملہ سے جواب طلبی کریں کہ آپ لوگوں نے کتنی شجرکاری کی؟ اور اس کی دیکھ بھال کی حالت کیا ہے؟ ذرا گھوم پھر کر صفائی کی حالت کا مشاہدہ کریں اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں کہ یونیورسٹی میں ٹریفک سسٹم کی کیا حالت ہے؟ پک اینڈ ڈراپ گاڑیاں، رکشے اور ٹیکسی کاریں کس سسٹم اور روٹ کے تحت چلتی ہیں۔ یونیورسٹی کی اپنی ہی بسوں کے پریشر ہارن بھی قدرے دھیان سے سن لیں۔ ون ویلنگ اور سکریچنگ بھی نظر انداز نہ کریں تاکہ جامعہ کی عظمت رفتہ بحال ہو۔ مالی شفافیت، کفایت شعاری خود احتسابی، جواب طلبی اور مؤثر نظم وضبط کے بغیر یونیورسٹی تو یونیورسٹی رہے گی لیکن ایک بہترین اور منظم درسگاہ نہیں ہوگی۔ کیمپس میں اشیائے خورد ونوش کے معیار اور ان کی قیمتوں اور ٹریفک کے من مانے چلن کو جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے