بھلائی پلٹ پلٹ کر آتی ہے۔۔۔۔

سکاٹ لینڈ کا ایک فلیمنگ نامی کسان اپنی زمینوں میں کام کر رہا تھا۔ اسی دوران اس نے دیکھا کہ ایک بچہ دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اس نے جا کر بچے کو دلدل سے نکال باہر کیا اور اسے صاف کرکے گھر بھیج دیا۔ دوسرے دن وہ کیا دیکھتا ہے کہ اس کی جھونپڑی کے سامنے ایک ”رائل کیرج“گاڑی کھڑی ہے اور اس میں سے رنڈولف نامی شخص جو اپنے زمانے کا سکاٹ لینڈ کا بہت بڑا امیر آدمی تھا، نکلا۔ اس نے فلیمنگ سے کہا کہ آپ نے کل میرے بچے کو بچایا میں اس کے عوض آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ فلیمنگ نے کہا کہ نہیں نہیں یہ تو انسانیت کا کام تھا، اس میں پیسے کا کیا لین دین ہے۔ مگر امیر آدمی بضد تھا۔ اتنے میں جھونپڑی سے ایک بچہ دوڑتا ہوا آیا۔ رنڈولف نے فلیمنگ سے پوچھا کہ یہ آپ کا بچہ ہے۔ اس نے کہا، ہاں۔ امیر آدمی نے کسان فلیمنگ سے کہا کہ چلو میرا بیٹا جہاں پڑھتا ہے آپ کے بچے کو بھی وہاں پڑھاؤں گا۔ لہٰذا اس نے کسان کے بچے کو لے کر سینٹ میری میڈیکل سکول و کالج میں اپنے بچے کے ساتھ داخل کرا دیا۔ جو اس وقت لندن کا سب سے اعلیٰ تعلیمی ادارہ تھا۔ وہ بچہ آگے جاکر الیگزینڈر فلیمنگ بن گیا۔ جس نے 28 ستمبر 1928ء کو پینسلین ایجاد کی۔جس لڑکے کو فلیمنگ نے دلدل سے نکالا تھا اس کے بچے کو نمونیا ہو گیا اور وہ مرنے والا تھا کیونکہ اس وقت میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ مگر جب اسے پنسلین دی گئی تو وہ بچ گیا۔ وہی لڑکا بعد میں برطانیہ کا دو بار وزیراعظم بنا اور اس کا نام ونسٹن چرچل تھا۔واضح رہے کہ رنڈولف، ونسٹن چرچل کا دادا تھا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ بھلائی پلٹ پلٹ کر آتی ہے۔ یہی الیگزینڈر فلیمنگ ایسا آدمی تھا جس کو 1945 ء میں میڈیسن کا نوبل انعام دیا گیا اور اسے کہا گیا کہ پنسلین کو پیٹنٹ کرنا ہے تو اس کے عوض آپ کو کروڑوں پاؤنڈ ملیں گے۔ مگر اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے یہ ایجاد انسانیت کی بھلائی کے لئے کی ہے۔ اسی پنسلین کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم میں 20 سے 30 لاکھ سپاہی شفایاب ہو گئے تھے۔سعودی عرب کے شہر القسیم کے کھجوروں کے ایک باغ میں کم و بیش دو لاکھ درخت موجود ہیں اور یہ باغ اللہ کی راہ میں وقف ہے۔ اس باغ میں پینتالیس قسم کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ اس باغ کی سالانہ پیداوار دس ہزار ٹن ہے۔ یہ باغ روئے زمین پر پائے جانے والا سب سے بڑا وقف ہے۔ اس باغ کی آمدنی سے دنیا بھر میں مساجد، خیراتی کام اور حرمین شریفین میں تاریخی دسترخوان لگائے جاتے ہیں۔ یہ باغ سعودی عرب کے ایک امیر ترین شخص سلیمان الراشعی نے وقف کر رکھا ہے۔ سلیمان الراشعی نے غربت میں آنکھ کھولی۔ وہ سکول میں پڑھ رہا تھا کہ سکول انتظامیہ نے ایک تفریحی ٹور تشکیل دیا اور ہر ایک طالب علم سے ایک ایک ریال جمع کرانے کو کہا۔ وہ گھر گیا مگر والدین کے پاس ایک ریال نہیں تھا۔ وہ بہت رویا۔ ٹور کے دن قریب آئے۔ انہی دنوں سہ ماہی امتحانات کا رزلٹ آیا، جس میں سلیمان الراشعی نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے فلسطینی استاد نے اسے انعام کے طور پر ایک ریال دے دیا۔ اس نے دوڑ کر ٹور کے منتظم کے پاس ایک ریال جمع کرایا اور ٹور میں شامل ہو گیا۔ اس وقت اس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ذہین بندہ تھا۔ اپنی تعلیم مکمل کرکے اس نے جدہ میں ایک کمرے میں بینک کھولا۔ سخت محنت کرکے بینک الراشعی کے نام سے پورے سعودی عرب میں اس کی شاخوں کا جال بچھایا۔سلیمان الراشعی نے جب خوب دولت کمائی تو ایک دن اسے وہ فلسطینی استاد یاد آیا۔ وہ اس کی تلاش میں نکل گیا۔ آخرکار اس نے اپنے استاد کو ڈھونڈ نکالا۔ ریٹائر ہو چکا تھا۔ معاشی حالت اچھی نہیں تھی۔ الراشعی نے اسے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور کہا کہ آپ کا مجھ پر قرض ہے۔ استاد نے کہا کہ مجھ مسکین کا کس پر قرض ہو سکتا ہے۔ الراشعی نے اسے یاد دلایا کہ کئی سال پرانی بات ہے آپ نے مجھے کلاس میں پوزیشن لینے پر انعام کے طور پر ایک ریال دیا تھا۔ استاد مسکرایا اور کہنے لگا کہ کیا آپ مجھے وہ ریال واپس کرنا چاہتے ہیں۔ راشعی نے ایک بنگلے کے سامنے گاڑی کھڑی کر دی جس کے سامنے ایک بیش قیمت گاڑی بھی کھڑی تھی۔ راشعی نے استاد سے کہا کہ آج سے یہ بنگلہ اور گاڑی آپ کی ہے۔ مزید اخراجات بھی میرے ذمے ہوں گے۔فلسطینی استاد کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہا کہ یہ عالی شان بنگلہ اور گاڑی بہت زیادہ ہے۔ راشعی نے استاد سے کہا کہ اِس وقت آپ کی خوشی کا جو عالم ہے اس سے بڑھ کر میری خوشی کا عالم تھا جب آپ نے مجھے بطور انعام ایک ریال دیا تھا۔سلیمان الراشعی نے 2010 ء میں اپنے بچوں، بیگمات اور عزیز و اقارب کو بلا کر اپنی دولت تقسیم کر دی اور اپنے حصے میں جو کچھ آیا وہ وقف کر دیا۔ اس وقت سلیمان الراشعی کی دولت کی مالیت ساٹھ ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ وہ سعودی عرب کے الراشعی بینک اور کئی دوسرے بڑے بڑے اداروں کے مالک ہیں۔ انہوں نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے 170 ملین ڈالرز امداد کے طور پر دیئے ہیں اور مکہ مکرمہ میں دو ہوٹل وزارت صحت کے حوالے کئے ہیں۔ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں یہ سب سے بڑے وقف کے طور پر درج ہے۔ فوکس میگزین نے اسے دنیا کے سب سے بڑے 20 فیاض لوگوں میں شمار کیا ہے۔سعودی عرب میں ایسا کوئی شہر نہیں جہاں راشعی کی طرف سے مساجد تعمیر نہ کی گئی ہوں۔ تمام خیراتی سینٹرز میں اس فیملی کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنے ملازمین کو مہینہ ختم ہونے سے پہلے اجرت دے دیتا ہے۔ اس کی ملازمین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس عظیم شخصیت کا پچھلے مہینے انتقال ہو گیا۔