رحیم اللہ یوسفزئی کے ساتھ کچھ یادیں 

فدا محمد خان خیبر پختونخوا کے گورنر تھے اور مرحوم تقی شراب ہاشمی ڈائریکٹر انفارمیشن ہوا کرتے تھے۔ ایک اتوار کے دن صبح سویرے تقی شراب ہاشمی میرے گھر پشاور تشریف لائے۔ دعا سلام کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ آج تو آپ بہت سویرے آئے ہو، خیر تو ہے؟ کہنے لگے آپ سے ایک ضروری کام پیش آیا تھا۔ سویرے اس لئے آیا کہ آپ کہیں کسی کام سے جلدی میں گھر سے باہر نہ نکل جائیں‘تقی صاحب کہنے لگے کہ گورنر صاحب کی طرف سے مجھ پر بڑا دباؤ ہے کہ میرے کوٹے میں حیات آباد میں چند پلاٹ ہیں جن میں سے ایک رحیم اللہ کو دینا چاہتا ہوں۔ لہٰذا ان سے فارم پْر کرکے لے آؤ۔ مگر میری کئی کوششوں کے باوجود وہ فارم پْر نہیں کر رہے، اس لئے آپ ان کو راضی کریں۔ پہلے تو میں نے اْس سے اِس سلسلے میں بات کرنے سے انکار کر دیا مگر تقی صاحب کے بہت اصرار پر میں نے ٹیلی فون اٹھا کر رحیم اللہ سے بات کی۔ آگے سے اس نے پوچھا کہ کیا تم اس قسم کی پیش کش کو قبول کر لو گے؟ میں نے کہا کہ کبھی نہیں‘ تو اس نے جواب دیا کہ پھر میں کیسے قبول کروں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو تقی صاحب مجبور کر رہے تھے کہ آپ سے بات کروں اور انہوں نیکہا کہ آپ صرف میری بات مان سکتے ہیں۔کردار کے پکے اور تعلق کے سچے رحیم اللہ یوسفزئی کے ساتھ بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔ایک مرتبہ کرم ایجنسی میں  پرتشدد واقعات کے بعد پولٹیکل انتظامیہ نے دونوں اطراف کے جید علماء کو اکھٹا کیا تاکہ حالات کو کنٹرول میں لایا جاسکے۔ اس غرض کے لئے اس وقت کے کمشنر پشاور خالد عزیز صاحب نے مجھے اور رحیم اللہ یوسفزئی کو فون کرکے کہا کہ آپ لوگ جرگہ کی کوریج کے لئے کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹرز پاڑا چنار چلے جائیں۔ہم دونوں کے علاوہ ایک ایک رپورٹر فرنٹیئر پوسٹ اور روزنامہ مشرق اخبار سے شامل کیا، فرنٹیئر پوسٹ سے خالد سلطان اور روزنامہ مشرق کے چیف رپورٹر اے آر جلال صاحب تھے۔ چونکہ خالد عزیز صاحب ہم دونوں کے مشترکہ دوست تھے‘اس لئے رحیم اللہ یوسفزئی نے مجھے فون کرکے بتایا کہ ہمیں خالد عزیز صاحب کی خاطر جانا چاہئے۔ کمشنر صاحب نے ہمارے جانے کے لئے سِسنَا(Casna) جہاز کا بندوبست کر رکھا تھا۔ ہم چار بندے وہاں گئے۔ اْس وقت قصوریہ صاحب وہاں کے پولیٹیکل ایجنٹ تھے۔ انہوں نے ہماری خوب آؤ بھگت کی کیونکہ کمشنر صاحب نے پہلے ہی سے ان سے بات کی تھی۔جرگہ ختم ہونے کے بعد پولیٹیکل ایجنٹ صاحب نے بہت بڑے کھانے کا انتظام کیا تھا۔ کام ختم ہونے کے بعد ہم واپس اسی سِسنَا جہاز میں بیٹھ کر واپس آنے لگے۔ جہاز نے جب اْڑان پکڑی تو پی آئی ڈی کے اس وقت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ فیض صاحب پولیٹیکل ایجنٹ صاحب نے مجھے کچھ رقم آپ لوگوں کے اخراجات کے لئے دی ہے۔ لہٰذا آپ برابر میں تقسیم کر لیں۔ رحیم اللہ یوسفزئی یہ بات سن کر بہت ناراض ہوئے۔ میں نے پی آئی ڈی کے افسر سے کہا کہ ہماری قیمت لگاتے وقت پہلے ہم سے پوچھ لیا ہوتا۔ اس بات پر وہ افسر بہت پشیمان ہوا اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔ پشاور پہنچ کر رحیم اللہ نے کمشنر پشاور کو فون کرکے سارا ماجرا سنایا۔ اْس نے آگے سے معذرت کی اور کہا کہ میں پولیٹیکل ایجنٹ کو بتانا بھول گیا تھا کہ یہ لوگ پیسوں والے نہیں ہیں، تھوڑی دیر بعد کمشنر پشاور صاحب نے مجھے بھی فون کرکے معذرت کی۔جنرل پرویز مشرف اپنی حکومت کے آخری سال پشاور کے دورے پر آئے تھے۔ سارا دن کور ہیڈ کوارٹرز میں مختلف میٹنگز کے بعد رات گزارنے ٹھہرے تھے۔ اسی دوران رات کے کھانے پر مختلف افراد سول، ملٹری افسران اور کچھ صحافیوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ مجھے بھی رحیم اللہ یوسفزئی کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا کیونکہ سرکاری نیوز ایجنسی کے بندے کا ہونا ضروری تھا۔ کھانا جیسے ہی شروع ہوا تو سینٹرل ٹیبل پر جنرل پرویز مشرف دوسرے فوجی اور اعلیٰ سول افسران کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اسی دوران جنرل مشرف کی نظر رحیم اللہ یوسفزئی پر پڑی تو کھانے کی پلیٹ ہاتھ میں لے کر سیدھے رحیم اللہ کی طرف آئے اور آتے ہی انہیں کہنے لگے کہ ”یوسفزئی صاحب ہم تو آپ کو پڑھتے ہیں اور خاص کر افغانستان کے معاملے پر“ انہوں نے رحیم اللہ کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ آپ کی رپورٹنگ بڑی مستند اور متوازن ہوتی ہے کیونکہ جب ہم کاؤنٹر چیک کرتے ہیں تو اس میں کوئی غلطی کی گنجائش یا مبالغہ نہیں ہوتا۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے آگے سے بڑے دھیمے لہجے میں کہا کہ جنرل صاحب ہم تو کوشش کرتے ہیں کہ قارئین تک صحیح اطلاع پہنچے۔اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں سچائی، راست بازی اور اپنے نقطہ نظر کو موثر انداز میں پیش کرنے میں مہارت رکھنے کے علاوہ نجی زندگی میں بہت نرم مزاج، غریب پرور اور تعاون کرنے والے واقع ہوئے۔ ہر کسی کی بات کو غور سے سنتے اور اگر مشورہ دینے کی ضرورت ہوتی تو راسخْ العقیدہ انسان کی طرح صحیح مشورہ دیتے۔پشاور کے صحافیوں کے درمیان اگر اختلاف پیدا ہوتا تو دونوں اطراف رحیم اللہ یوسفزئی کو فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیتے اور یوں مسئلے کا حل نکالا جاتا تھا۔ ان کی وفات سے پشاور کی صحافی برادری ایک بہت بڑے مصلح سے محروم ہو گئی ہے۔