ڈینگی کا عروج، کورونا کا زوال

کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ امریکہ، یورپ کے تمام ممالک، ایشیا، آسٹریلیا، افریقہ اور انٹارکٹیکا غرض تمام ممالک میں یہ تباہی رونما ہوئی اور اب بھی جاری ہے۔ کروڑوں لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے۔ لاکھوں لقمہ اجل بن گئے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس کا حتمی علاج معلوم نہیں ہے۔ اب چند ایک ممالک میں اس کے تدارک کیلئے ویکسین ایجاد کی گئی ہے۔ مگر چند ایک ویکسین پر اب بھی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ایک مخصوص ٹولہ اس کے خلاف پروپیگنڈہ مہم میں پیش پیش ہے، جو ویکسین کو اس کا حتمی علاج تصور نہیں کرتا۔ اس مہم میں دنیا کے بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے بعض لوگ ابھی تک تذبذب کا شکار ہیں۔ اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں ویکسین لگانے والوں میں کورونا کا پھیلا ؤکافی حد تک کنٹرول ہو چکا ہے۔ پھیلا ؤکی شرح میں نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ویکسین لگانے والے، ویکسین نہ لگانے والوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ محفوظ ہیں۔ پاکستان دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم متاثر ہوا ہے۔ جس کی بڑی وجہ حکومتی سطح پر ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد ہے اور اس مقصد کیلئے سزاؤں تک پر بھی عمل درآمد ہو رہا ہے۔ خدا کرے اس عذاب سے قوم کو چھٹکارا مل جائے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی اچھا خاصا دھچکا لگا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے کورونا کے پھیلا ؤکی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سکولوں میں پوری حاضری لازمی قرار دی گئی ہے۔ جس پر گیارہ اکتوبر سے عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔بدقسمتی سے اگر ایک طرف کورونا پر قابو پایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ڈینگی کا مرض تیزی سے سر اٹھا رہا ہے۔ ڈینگی مچھر ایک خاص موسم میں کھلی جگہ پر پانی ٹھہرنے سے پیدا ہوتا ہے۔جس کے تدارک کیلئے پہلے سے مہم شروع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ نقصان ہونے کے بعد ہم تدارک کیلئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ڈینگی مچھر کی افزائش کی روک تھام کے لئے لوکل گورنمنٹ کے منتخب نمائندوں اور اہلکاروں سے کام لینا چاہئے۔ کیونکہ انہیں اپنے حلقے کے گلی کوچوں کا علم ہوتا ہے۔ڈینگی مرض کے علاج پر کسی کو بھی شک و شبہ نہیں۔ اگرچہ حکومتی سطح پر یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ ڈینگی سے ہلاکتوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر پھر بھی خیبرپختونخوا میں ابھی تک پانچ اموات کی تصدیق ہو چکی ہے۔ یہ بیماری صرف خیبرپختونخوا تک محدود نہیں ہے بلکہ سندھ، کراچی اور پنجاب کے کئی شہر اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ جن میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس مرض میں اس قدر شدید بخار ہوتا ہے کہ انسان کے ہوش اُڑ جاتے ہیں اور جوڑوں میں جو درد ہوتا ہے وہ ناقابل برداشت ہوتا ہے۔پشاور ہائی کورٹ نے ڈینگی کے پھیلا ؤکو روکنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ ہدایت اعلیٰ عدلیہ نے پشاور اور صوبے کے مختلف علاقوں میں تیزی سے پھیلنے والی اس وباء کے تدارک کیلئے جاری کی ہے۔ پشاور کے اردگرد کے علاقے، سربند، سفید ڈھیری، اچینی بالا، پشتہ خرہ اور تہکال بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے میں چیف سیکرٹری کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں تمام شہروں میں سپرے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ صوبے کے تمام بڑے ہسپتالوں میں 600 بستروں کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔یہ اعلانات اپنی جگہ اچھے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ان انتظامات کو باقاعدگی سے مانیٹر کیا جائے۔ سپرے کے سلسلے میں ہر شہر میں فوکل پرسن مقرر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ متعلقہ عملے کی کارکردگی سے حکومت آگاہ رہے۔ڈینگی وائرس کی مکمل روک تھام کیلئے سنگاپور کی حکومت سے بھی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ وہاں کے سائنس دانوں نے ڈینگی مچھر کی افزائش روکنے کیلئے ایک  نئے  مچھر کی افزائش کی۔ جو ڈینگی مچھر سے دوستی بنا کر اسے انڈے دینے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ یہ تجربہ انہوں نے وہاں پر ڈینگی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں لوگ متاثر ہونے اور درجنوں افراد ہلاک ہونے کے بعد ضروری سمجھا۔سائنس دانوں نے لیبارٹری میں لاکھوں کے حساب سے ایسے نر مچھر وں کی افزائش کی جو باہر جا کر ڈینگی کی مادہ مچھر کواپنی طرف راغب کرتے ہیں کیونکہ ڈینگی کا وائرس مادہ ڈینگی مچھر میں پایا جاتا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ لیبارٹری میں پیدا شدہ مچھر انسانوں کو نہیں کاٹتا۔ ایسے مچھروں کو مختلف مقامات پر چھوڑنے کیلئے انہوں نے ماسکیٹو گن تیار کئے ہیں جس کے ذریعے مچھروں کو چھوڑا جاتا ہے۔نہ نئے بچے پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی نئے مچھراور یوں برے مچھروں کی نسل کے پھیلاؤ کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ اسی طرح سنگاپور برے مچھروں سے 90 فیصد تک پاک ہو چکا ہے اور کئی شہروں کے عوام کو وائرس کے خطرے سے بچایا جا چکا ہے۔یہ معقول طریقہ کار اس قدر کامیاب ہوا کہ سنگاپور میں اچھے مچھروں کی افزائش نسل کیلئے فیکٹریاں کھولی جا رہی ہیں تاکہ ڈینگی سے لڑا جا سکے۔ یہ فیکٹری اتنی جدید طرز پر بنی ہوتی ہیں کہ روزانہ لاکھوں اچھے مچھر کی افزائش کر سکتی ہے اور اس طرح دنیا کی ایک بڑی مشکل حل ہو سکتی ہے۔اگر سنگاپور جیسا چھوٹا ملک یہ سہولت اور آسانی پیدا کر سکتا ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ نے کافی وسائل دیئے ہیں۔ ہم پہلے تو یہی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں ورنہ تو ایسا سپرے ایجاد کر سکتے ہیں جو انسان کو نقصان پہنچائے بغیر ان مچھروں کو تلف کر سکے۔