قوموں کی تاریخ ان کے ہیروز کی قربانیوں سے بنتی اور شاندار ہوتی ہے۔ ہر قوم پر اچھے وقتوں کے ساتھ ساتھ برے اور سخت اوقات بھی آتے رہتے ہیں۔ ان برے اور سخت اوقات میں ہی ہر ملک و قوم کے ہیروز اُبھرتے ہیں، جو اس کو ترقی و عروج کی طرف لے جاتے ہیں، ہر ہیرو اپنے ملک کیلئے اپنی زندگی کو خطروں میں ڈالتا ہے اور لازوال قربانیاں دیتا ہے۔آج ہمارے موضوع کا مرکز وہ شخصیت ہے جن کے آباؤاجداد تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی خاطر اپنا ملک ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان عالم اسلام کا وہ ستارہ ہے جو رہتی دنیا تک چمکتا رہے گا۔ڈاکٹر قدیر خان کی وفات کے بعد حال ہی میں اسرائیلی اخبار ہیرٹز نے لکھا ہے کہ کس طرح بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے کئی بار کوششیں کی کہ ڈاکٹر صاحب کو قتل کیا جائے لیکن انہیں مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ موساد، مسلمان ممالک کے ایٹمی سائنس دانوں کے قتل میں سب سے زیادہ پیش پیش ہے۔ موساد کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح سے مسلمانوں کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اُبھرنے سے روکا جائے۔ اس لئے ہر قابل اور اعلیٰ ذہن مسلمان کو یہ ا یجنسی ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اور بہت کو مارا بھی ہے۔27 نومبر 2020ء میں ایران کے جوہری پروگرام کے سربراہ سائنس دان محسن فخری زادہ کو اسرائیلی موساد کے کارندوں نے تہران میں حملہ کرکے مار ڈالا۔ اس طرح ماضی میں عرب ممالک کے کئی سائنس دانوں کے قتل میں یہ ایجنسی ملوث پائی گئی ہے۔ڈاکٹر قدیر صاحب جس طرح ہمارے قومی ہیرو اور عالم اسلام کے عظیم سپوت ہیں اسی طرح وہ موساد جیسی مسلمان دشمن ایجنسیوں کیلئے آنکھ کا کانٹا تھے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جناح صاحب نے یہ ملک بنایا ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے بچایا ہے۔ اس لئے یہ دونوں حضرات حقیقی معنوں میں محاسن پاکستان ہیں۔کس کو پتہ تھا کہ بھوپال، انڈیا سے پاکستان آنے والا بچہ بڑا ہو کر اس کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔ ورنہ ہندو، تقسیم ہند کے وقت ہجرت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے کی بجائے اگر خدا نخواستہ صرف اس بچے کو قتل کر دیتے تو آج پاکستان واحد اسلامی ایٹمی طاقت نہ ہوتا اور ہندوستان کی پاکستان کو تباہ کرنے کی خواہش پوری ہو چکی ہوتی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جد اعلیٰ فاتح ہند سلطان شہاب الدین غوری کی فوج میں شامل تھے۔ سلطان غوری نے ہی پرتھوی راج چوہان کو عبرتناک شکست سے دوچار کرکے مار دیا تھا۔جنرل شیر علی خان نے 1985ء میں سب سے پہلے کھوج لگایا تھا کہ سلطان شہاب الدین غوری کی قبر جی ٹی روڈ سوہاوہ،جہلم کے اندر 15 کلو میٹر کی دوری پر دھمیک گاؤں میں ہے۔ جنرل شیر علی خان کے بقول سلطان شہاب الدین غوری ان کے خواب میں ان سے ملنے آتے تھے اور انہیں اپنی قبر کے بارے میں بتاتے تھے‘ بعد ازاں جنرل شیر علی خان ہی ڈاکٹر قدیر خان کو سلطان غوری کی قبر کی زیارت کیلئے لے گئے جو اس وقت بہت ہی خستہ حالت میں تھی اور ڈاکٹر قدیر خان صاحب کی کوششوں سے 1995ء میں فاتح ہند کی قبرکو بنایا گیا اور اس تک رسائی والے روڈ کو بھی پختہ کیا گیا۔ ڈاکٹرقدیر خان کے مطابق اس وقت اس مزار پر چالیس (40) لاکھ روپے سے زائد کی لاگت آئی تھی، جس میں زیادہ تر پیسہ دبئی میں رہائش پذیر ان کے ایک امیر کاروباری پاکستانی دوست نے لگایا تھا۔جب ہندوستان نے اپنے قومی ہیرو پرتھوی راج چوہان کے نام پر پرتھوی میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تو قدیر خان نے سلطان شہاب الدین غوری سے اپنے خاندان کے روابط ہونے کی وجہ سے غوری کے نام سے میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ غوری میزائل، پرتھوی میزائل سے زیادہ جدید اور دور تک مار کرنے والا بلاسٹک میزائل ہے جو جوہری ہتھیار کو لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔جس طرح پاکستان کے بانی محمد علی جناح صاحب کی جگہ کوئی نہیں لے سکتااسی طرح پاکستان کو بچانے والے ڈاکٹر قدیر خان کی جگہ کوئی نہیں لے سکے گااور تاقیامت وطن عزیز کا وجود اورڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام زندہ رہے گا۔