امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے نکلتے وقت تمام جنگی ساز و سامان پیچھے چھوڑ گئیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں جنگ جیتنے اور افغانستان پر مستقل قبضہ جمانا محال نظر آنے لگا تھا۔ امریکی دفاعی تھنک ٹینکس نے بھی یہ مشورہ دیا تھا کہ جس قدر جلد ہو سکے افغانستان سے نکل جائیں۔ کیونکہ یہ جنگ نہ صرف انسانی بلکہ معاشی تباہی کا سبب بن چکی ہے۔ رات کی تاریکی میں اپنے اتحادیوں کو اطلاع دئیے بغیر بھاگ جانے میں اپنی عافیت سمجھ بیٹھے تھے۔ اتنی برق رفتاری سے امریکہ ماضی میں ویتنام یا دوسرے مقبوضہ ممالک سے نہیں نکلا تھا۔ امریکی فوجیوں کے نکلنے کے نتیجے میں طالبان کے فوری طور پر افغانستان میں اقتدار پر دوبارہ قبضے کی باتیں ہر خاص و عام کی زبان پر ہوتی تھیں، جو سچ ثابت ہوئیں کیونکہ افغان نیشنل آرمی جوکہ اعلیٰ ترین تربیت یافتہ تھی اور بہترین جنگی ساز و سامان سے لیس تھی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ فوج نفسیاتی طور پر طالبان سے شدید خوف زدہ تھی۔ایک اندازے کے مطابق امریکہ اور نیٹو افواج نے افغان نیشنل آرمی پر85ارب ڈالرز خرچ کئے مگر وہ انہیں جنگ لڑنے کا جذبہ نہ دے سکیں،جب کہ کسی وقت امریکہ اور نیٹو افواج کی مجموعی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی۔ اس طرح 50 ہزار طالبان کے مقابلے میں حکومتی اور بیرونی افواج کی تعداد دس گنا تھی۔ اس کے علاوہ طالبان کے پاس روایتی اسلحہ تھا جو جدید ترین اسلحے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔اس وقت امریکہ کو سب سے بڑی پریشانی یہ ہو رہی ہے کہ دنیا کا جدید ترین اسلحہ اور جنگی ساز و سامان طالبان کے ہاتھ لگ گیا اور وہ اس اسلحے سے دنیا کے کسی بھی طاقتور ترین ملک یا ممالک سے کئی دہائیوں تک لڑ سکتے ہیں۔ امریکہ میں کئی تھنک ٹینکس امریکی حکومت پر لعن طعن کر رہے ہیں کہ اگر مقابلہ نہیں کر سکتی تھی تو امریکی معیشت کو کئی ٹریلین ڈالرز سے کیوں محروم کیا۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں امریکی ساکھ کو شدید دھچکا بھی لگا۔ کئی بلین ڈالرز ہاتھ آنے کے علاوہ بڑی تعداد میں جنگی ساز و سامان جس میں 75 ہزار فوجی گاڑیاں، دو سو سے زیادہ جہاز اور ہیلی کاپٹرز، 6 ہزار سے زیادہ چھوٹا بڑا اسلحہ، 85 فیصد ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ بلیک ہاکس ہیلی کاپٹرز، گاگلز اور باڈی آرمرز جیسا سامان بھی ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔امریکہ کو جس چیز کی تشویش کھائے جا رہی ہے وہ ہے بائیو میٹرک آلات، جن کے ذریعے ان افغانیوں کی شناخت آسان ہوگئی ہے جنہوں نے گزشتہ بیس سال میں امریکہ کیلئے کام کیا۔ اس خوف کی فضا میں امریکہ اب طالبان کا محتاج دکھائی دے رہا ہے۔ یہ قانون فطرت ہے کہ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔طالبان کے سابقہ دور میں ملا جلیل نائب وزیر خارجہ تھے۔ جب 9/11 واقعے کے بعد امریکی اور نیٹو ممالک نے افغانستان پر فضائی بمباری شروع کی تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ خدا کرے امریکہ اور نیٹو ممالک اپنی افواج افغانستان بھیجیں کیونکہ ہمارے پاس میزائل اور دوسری فضائی قوت نہیں، ہم ان کا زمین پر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان کی یہ بات آج بالکل صحیح ثابت ہوئی۔امریکہ اور یورپی ممالک کو افغانستان کے امارات اسلامی افغانستان کے نام سے بھی شدید چڑہے۔ مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ماضی میں 1823 سے 1926 تک بھی افغانستان کا یہی نام تھا۔ طالبان نے کوئی نیا نام تجویز نہیں کیا ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اکیسویں صدی کے اختتام تک اب کوئی بھی دنیاوی طاقت افغانستان میں مہم جوئی کی غلطی نہیں دہرائے گی کیونکہ امریکہ، نیٹو اور ان کے اتحادیوں کی عبرت ناک شکست سب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ ماضی میں یورپی ممالک نے مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے مگر آخرکار ان کو شکست و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔فرانس کے دانشور اور لکھاری افغانستان میں انسانی حقوق بالخصوص حقوق نسواں پر بھاشن دے رہے ہیں اور طالبان کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے‘ مگر کیا انہیں یاد نہیں کہ 1917 میں چاڈ پر قبضہ کرنے کے بعد 400 مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان کے سروں کو تن سے جدا کیا گیا تھا‘اسی فرانس کے فوجیوں نے 1852 میں الجیریا کی کل آبادی کا 2/3 حصہ آگ لگا کر صرف ایک رات میں ہلاک کیا تھا۔ کیا اسی فرانس نے 1960 سے لے کر 1962 تک الجیریا میں 17 ایٹمی دھماکے نہیں کئے جس کی وجہ سے 27 ہزار سے ایک لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے اور اسکے اثرات اب بھی محسوس کئے جا رہے ہیں‘1962 میں جب الجیریا نے طویل جدوجہد کے نتیجے میں 132 سال بعد آزادی حاصل کی تو فرانس نے نکلتے وقت وہاں کی آبادی سے زیادہ بارودی سرنگیں نصب کیں تاکہ باقی آبادی بھی ختم ہو جائے‘ اب وہ افغانستان کو انسانی حقوق اور حقوق نسواں کا درس دے رہا ہے‘فرانس تیونس پر 75سال‘ مراکو پر 44 سال اور موریطانیہپر60 برس تک قابض رہا۔ اس دوران فرانسیسی مظالم کی داستانیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں‘ جن کا ذکر کسی اور کالم میں کریں گے۔