امریکہ کو ایک طرح سے انسانی حقوق کا علمبردار گردانا جاتا ہے اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی مالی اعانت کی جاتی رہی ہے۔ امریکہ نے ماضی میں کئی ممالک کی فوجی بغاوتوں کی سخت مخالفت بھی کی ہے اور جمہوریت کو کسی بھی ملک کی فلاح و بہبود کا ذریعہ گردانا ہے‘ امریکہ کا یہ چہرہ بظاہرحسین نظر آتا ہے مگر بنظر غائر دیکھا جائے تو موجودہ امریکہ کی بنیادوں میں یہاں کے قدیمی باشندوں ریڈ انڈین کا خون صاف نظر آئیگا۔ آج ہم امریکہ اور نیٹو ممالک کی افواج نے افغانستان اور عراق کی جیلوں میں قیدیوں کیساتھ جو سلوک روا رکھا تھا انکا مختصر ذکر کرینگے جسے سُن اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،یہ ایک الگ کہانی ہے کہ9/11 کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے امریکی سی آئی اے کے ایک اعلیٰ عہدیدار میلکم ہاورڈ نے مرنے سے پہلے اقبال جرم کیا ہے اور کہا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی بنیادوں میں اس نے دھماکہ خیز مواد نصب کیا تھا اور یہ بھی کہا ہے کہ طیارے ریموٹ کنٹرولڈ اور خالی تھے۔9/11 واقعے کے بعد امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان پر چڑھ دوڑیں اورنام نہاد ”وار آن ٹیرر“کے نتیجے میں امریکہ ابتک لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرچکا ہے۔ طالبان حکومت کے گرنے کے بعد ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ پہلے گوانتانامو بے اور پھر بگرام جیل کو ان سے بھر دیا گیا۔ہٹ دھرمی کی انتہا دیکھئے کہ جنیوا کنونشن میں وضع کردہ جنگی قیدیوں کے حقوق کی دھجیاں اُڑا دی گئیں۔ طاقت کے نشے میں چور جارج ڈبلیو بش نے طالبان کو انسان ماننے سے انکار کر دیا تھا اور واضح الفاظ میں کہا تھا کہ یہ لوگ کوئی انسانی حقوق نہیں رکھتے۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بات پر سخت احتجاج کیا تھا مگر صدر بش اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔امریکی مظالم کی داستانیں امریکہ کے گوانتانامو بے، افغانستان میں بگرام جیل اور عراق کے ابو غریب جیل کی باتیں تو اب زبان زد عام ہیں۔جنیوا کنونشن کے مطابق حملہ آور یا فاتح قوم مفتوح قوم کے سفیر کو بے عزت نہیں کر سکتی مگر 9/11 واقعے کے بعد امریکہ نے تو انسانی حقوق کی باتیں پس پشت ڈال دیں۔بقول اس وقت کے طالبان سفیر ملا ضعیف کے‘ گوانتانامو بے اور بگرام جیل میں قیدیوں کیساتھ بہت غیر انسانی سلوک ہوتا تھا۔ انکی داڑھیاں منڈوا دی جاتی تھیں، قرآن پاک چھین لئے جاتے تھے اور انہیں خار دار لوہے کے بیڈز پر زبردستی لٹایا جاتا تھا۔افغان طالبان کیساتھ ساتھ پاکستانیوں کے ساتھ بھی شک کی بنیاد پر ناروا سلوک برتا گیا۔افغانستان میں مختلف روزگار کیلئے جانے والے پاکستانیوں کو افغان نیشنل آرمی نے طالبان کے حمایتی اور مددگار سمجھ کر گرفتار کیا تھا۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم "جسٹس پروجیکٹ پاکستان" نے ان قیدیوں کی رہائی کیلئے بہت کوششیں کیں اور کئی سال کی تگ و دو کے بعد درجنوں افراد کو چھڑا لیا۔ ان میں سے کچھ چھ سال، تو کچھ آٹھ سال تک جیل کی تکالیف بغیر کسی جرم کے برداشت کرتے رہے اور 2014 ء میں رہا کئے گئے۔ ان میں بہت سارے مستقل ذہنی عدم توازن کا شکار ہوئے۔ اس تنظیم نے ان قیدیوں کی زندگی پر 2015ء میں ایک رپورٹ پیش کی جسکو ”فیسز فرام دی فرنٹیئر، سٹوریز آف بگرام ڈیٹنیز“کا نام دیا گیا۔ اس رپورٹ میں 43 پاکستانیوں کا ذکر ہے جنکو بغیر کسی جرم کے افغانستان میں طالبان یا انکا حمایتی کہہ کر پکڑا گیا اور جیل میں جسمانی اور نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس رپورٹ میں ایک 16 سالہ لڑکے کا ذکر ہے جو شمالی وزیرستان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا بوڑھا باپ اور وہ دونوں لکڑیوں کا کاروبار کرتے تھے۔ یہ لکڑیاں افغانستان سے خرید کر خیبر پختونخوا میں لاکر بیچتے تھے۔ 2007 ء کو یہ لڑکا افغانستان کے کنڑ علاقے سے لکڑیاں لا رہا تھا کہ مقامی پولیس نے اس سے رشوت مانگی۔ انکار پر یوسف حامد پر دہشت گرد اور طالبان کا ٹھپہ لگا کر امریکہ کے حوالے کرکے بگرام جیل بھیج دیا گیا‘ جہاں پر وہ سات سال تک قید رہا۔ یوسف حامد کے بیان کے مطابق بگرام جیل میں مار پیٹ کے علاوہ امریکی فوجی انکو بائیں پاؤں میں انجکشن لگاکر نیم بے ہوش کرتے‘یہ لڑکا ”جسٹس پروجیکٹ پاکستان“کی کوششوں سے سات سال بعد 2014 میں رہا ہوااور آخر کار بائیں پاؤں میں انہی انجیکشنز کیوجہ سے کینسر لاحق ہوا اور وفات پا گیا۔ یہ تو صرف ایک لڑکے کی دکھ بھری داستان ہے۔ اسطرح ہزاروں رُلا دینے والی داستانیں ہیں کہ کس طرح انسانی حقوق کو پامال کیا گیا۔اسکے برعکس جب 15 اگست 2021 ء کو امریکہ، نیٹو افواج بمعہ انڈین اور انکے حامی بھاگ گئے تو طالبان نے بہت فراخ دلی اور صلہ رحمی کا مظاہرہ کیا اور عام معافی کا اعلان کیا۔ کسی کو جانی یا مالی نقصان نہیں پہنچایا مگر مغربی، امریکی اور انڈین میڈیا اب بھی امارات اسلامی افغانستان کے بارے میں جھوٹ اور مکر و فریب کا واویلا مچا رہا ہے اور انسانی حقوق کا رونا رو رہاہے۔