جسے اللہ چاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالی جب کسی انسان کی کسی ادا سے خوش ہو جاتا ہے یا اس سے کوئی بامقصد کام لینا چاہتا ہے تو اس کیلئے ایسا وسیلہ یا بہانہ بنا دیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
دنیا نے دیکھا کہ نیل آرم سٹرانگ پہلا خلانورد تھا جو چاند پر پہنچا اور اپنے مشن میں کامیاب ہوا۔ واپس آکر امریکی حکومت نے سرکاری خرچ پر اسے پوری دنیا کی سیر کرنے کی سہولت دے دی۔ اس نے اِس مقصد کیلئے سب سے پہلے مصر کو منتخب کیا اور قاہرہ میں اپنے ایک دوست کو آگاہ کیا۔ دوست نے اس کی رہائش کیلئے قاہرہ میں سب سے اعلی ترین ہوٹل میں رہائش کا بندوبست کیا۔ قاہرہ پہنچنے کے اگلے روز اسی دوست نے نیل آرم سٹرانگ کو اپنے ہاں چائے کی دعوت پر بلایا۔ ہزاروں لوگ وہاں اکھٹے ہو گئے تھے۔ اسی دوران آنے والے ان سے آٹوگراف لیتے رہے اور ساتھ فوٹو بھی کھینچواتے رہے۔ اس دھکم پیل کے دوران عصر کی نماز کیلئے آذان سنائی دی۔ گپ شپ میں مصروف نیل آرم سٹرانگ اچانک خاموش ہو گئے۔ مصری دوست نے ان سے ملنے کیلئے آنے والے لوگوں سے بات کرنے اور انہیں آٹوگراف دینے کا کہا مگر پھر بھی وہ خاموش رہا۔ اس نے اپنے دوست سے آذان کے بارے میں پوچھا تو دوست نے اسے بتایا کہ یہ نماز کیلئے بلاوا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے اپنے دوست سے کہا کہ مجھے اس جگہ لے جا جہاں سے یہ آواز آرہی تھی۔ چنانچہ اس نے اسے جامع مسجد جو قریب ہی واقع تھی، وہاں لے گیا۔ نیل آرم سٹرانگ نے وہاں کے خطیب سے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ اور یوں وہ مسلمان ہو گیا۔ اگرچہ بعد میں امریکی حکومت کی طرف سے ان پر پابندیاں لگ گئیں مگر نیل آرم سٹرانگ بالکل مطمئن تھا اور کسی قسم کی پابندیوں کی پرواہ نہیں کی۔
اسی طرح کا واقعہ مشہور زمانہ باکسر محمد علی کلے کے ساتھ پیش آیا، جو اپنے ایک جاپانی مدمقابل باکسر کے ہاتھوں بے بس ہو کر زمین پر گر پڑا۔ اچانک اس کے ذہن میں "اللہ اکبر" کا نعرہ بلند ہوا اور اس نے اٹھ کر ایک ہی مکے سے اپنے مدمقابل کو زمین بوس کر دیا۔ اور یوں وہ اپنی برتری قائم رکھنے میں کامیاب ہوا۔ اس واقعے کے بعد وہ مشرف بہ اسلام ہوا۔
بالکل اسی طرح کا واقعہ امریکی ڈاکٹر لارنس بران کے ساتھ پیش آیا تھا جو اس وقت واشنگٹن میڈیکل کالج ہسپتال کا ڈائریکٹر تھا۔ یہ سال 1991 کی بات ہے کہ اس کے ہاں اسی ہسپتال میں اس کی بیٹی پیدا ہوئی۔جب وہ بچی کو دیکھنے گائنی وارڈ گئے تو دیکھا کہ اس کی بچی پیدائش کے چند گھنٹے بعد ہی کھڑی تھی۔ وہ حیران تو بہت ہوا مگر اسے اتفاق سمجھنے لگا۔ کیونکہ ڈاکٹر بران بنیادی طور پر اللہ تعالی کو نہ ماننے والا شخص تھا۔ اگلے سال جب اس کی دوسری بیٹی کی پیدائش ہوئی تو وہ بالکل نیلی تھی۔ ڈاکٹروں نے اسے کہا کہ بچی کے دل سے اس کے جسم کو خون سپلائی نہیں ہو رہا۔ اس لئے اس کے دل کا آپریشن بہت لازمی ہے۔ لارنسں بران بہت زیادہ پریشان ہوا۔ اسی دوران اس نے نیویارک میں اپنے ایک ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر دوست کو فون کرکے بلایا کیوں کہ اسی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے اسے بتایا تھا کہ اگر چوبیس (24) گھنٹوں کے اندر اس کا آپریشن نہ ہوا تو یہ بچی مر جائے گی۔ لہٰذا نیویارک میں ڈاکٹر نے فورا فلائٹ لی اور واشنگٹن پہنچ گیا۔ آپریشن تھیٹر کو پہلے سے ہی تیار کیا ہوا تھا۔ اور ڈاکٹر آتے ہی آپریشن تھیٹر چلا گیا۔ ڈاکٹر بران پریشانی کے عالم میں آپریشن تھیٹر کے باہر ایک بڑے برآمدے میں ٹہلتا رہا۔ برآمدے کے آخری سرے پر ایک بہت بڑا ہال بنا تھا۔ جس میں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرتے تھے۔ ڈاکٹر لارنس بران ہال کے اندر چلا گیا۔ اور اللہ تعالی سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تو واقعی موجود ہے تو میری بیٹی کو صحت یاب کر دے۔ جو بھی مذہب حقیقتاً آپ کو پسند ہے، میں اسے اختیار کر لوں گا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آپریشن تھیٹر واپس آیا، تو دیکھا کہ ڈاکٹر ایک کونے میں حیران کھڑے تھے اور بچی بیڈ پر سرخ و سفید لیٹی ہوئی تھی۔ لارنس بران نے ان سے پوچھا کہ آپریشن ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ وہ تو خودبخود ٹھیک ہو گئی ہے۔ اس واقعے سے ڈاکٹر بران سمجھ گیا کہ واقعی کوئی ایک ایسی طاقت موجود ہے جو اس پورے کائناتی نظام کو چلا رہی ہے۔ اس نے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا لیکن بھارت آکر ایک چھوٹی سی مسجد کے اندر داخل ہو کر اسے حقیقت معلوم ہوئی  اور وہ مسلمان ہو گیا۔ خود تو وہ ریٹائر ہو گیا ہے لیکن آج کل اس کی وہی بیٹی اسی ہسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کر رہی ہے۔
ڈاکٹر لارنس بران اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی حقیقت معلوم کرنے کی تلاش میں، میں نے عیسائیت، یہودیت، ہندومت حتی کہ بدھ مت کا بھی مطالعہ کیا اور اس مقصد کیلئے کئی ممالک کے دورے کئے۔
اسلام کا مطالعہ کرنے کیلئے بھارت گیا اور وہاں کئی علما سے ملاقاتیں کیں۔ اسی دوران پریشانی کے عالم میں ایک دیہاتی علاقے میں گھوم رہا تھا کہ ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ میں نے جوتے نکال کر مسجد کے اندر جانے کا ارادہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جیسے ہی میں نے مسجد کے اندر قدم رکھا میری حالت غیر ہو گئی اور ذہن میں روشنی پھیل گئی۔ میں اسی وقت سمجھ گیا کہ جس چیز کی تلاش تھی وہ شاید مل گئی۔ میں نے انگریزی میں ترجمہ کئے گئے قرآن مجید اور دوسری اسلامی کتابیں جمع کیں اور ان کا مطالعہ شروع کیا۔ جس سے میں بے حد متاثر ہوا اور یوں میں مسلمان ہو گیا۔
1992 میں بابری مسجد کو شہید کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے بلبیر سنگھ اس گھناؤنے واقعے کے بعد مسلمان ہو گئے۔ اس کا اسلامی نام محمد عامر ہے۔ اسے بابری مسجد کی شہادت کا اس قدر صدمہ پہنچا تھا کہ اپنی پشیمانی اور کئے پر نادم ہو کر اس نے 59 مساجد کی تعمیر کی۔ وہ تھوڑا عرصہ پہلے 26 جولائی کو وفات پا گئے۔ اس پر اسلام کی سچائی کا راز کھل گیا تھا۔