کورونا کی چوتھی لہر

پاکستان اور پوری دنیا میں کورونا کی نئی لہر آگئی ہے جسے ڈیلٹا ویرئینٹ وائرس بھی کہا جاتا ہے‘ اس کو کورونا کی چوتھی لہر کہتے ہیں جو اس وائرس کی پچھلی تینوں لہروں سے زیادہ جاں لیوا ثابت ہو رہی ہے۔ اس وائرس کی نشاندھی اس سال مئی کے مہینے میں ہوئی جب متحدہ عرب امارات سے چند پاکستانی مسافر پشاور کے باچا خان ائرپورٹ پہنچے۔ ان میں سے دو مسافروں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آئے۔ خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت میں ڈیلٹا ویرئینٹ کی تصدیق نہیں ہو سکی تاہم جب ان کے سیمپلز اسلام آباد کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ بھیجے گئے تو ڈیلٹا ویرئینٹ وائرس کی تصدیق ہو گئی، اس وقت اس قسم کے وائرس کے مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے مگر مستقبل قریب میں اضافہ خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ ابھی تک اس بارے میں حکومت کو پوری طرح سے جانکاری حاصل نہیں ہوئی ہے۔یہ ڈیلٹا ویرئینٹ وائرس سب سے پہلے پچھلے سال (2020) کو بھارت میں رپورٹ ہوا جس سے ہزاروں اموات واقع ہوئیں۔ یہ وائرس اب تک سب سے زیادہ پھیلنے والا اور موت کا سبب بننے والا ثابت ہوا ہے۔اس وائرس کی تصدیق پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کی۔شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور میں کام کرنے والی متعدی بیماریوں کی ماہرہ ڈاکٹر سمیعہ نظام الدین نے کہا ہے کہ ڈیلٹا ویرئینٹ کورونا وائرس کی زیادہ خطرناک اور مہلک قسم ہے اور یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلتابھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیلٹا ویرئینٹ پچھلی تینوں اقسام کے کورونا وائرس کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے اور دوسری اقسام کی نسبت لمبے عرصے تک انسانی جسم میں موجود رہتا ہے۔ماہرین کے مطابق ڈیلٹا ویرئینٹ میں بیماری کی علامات دوسرے کورونا وائرس جیسی ہی ہوتی ہیں مگر اس میں کھانسی کی نسبت نزلہ اور زکام زیادہ ہوتا ہے۔پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تشخیص مارچ 2020 میں ہوئی اور اس کی روک تھام کیلئے پورے ملک میں تین مہینے کیلئے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔ وباء کی پہلی لہر اسی سال مارچ سے اگست تک جاری رہی اور اس سے ہزاروں اموات واقع ہوئیں‘وباء کی دوسری لہر اکتوبر 2020 سے شروع ہوئی جو فروری 2021 تک چلی اور اس دوران سب سے زیادہ کیسز دسمبر 2020 کو رپورٹ ہوئے جو تین ہزار سے اوپر تھے۔کورونا وباء کی تیسری لہر نے مارچ 2021 میں سر اُٹھایا جو اگست تک چلی۔ سب سے زیادہ کیسز اپریل کے مہینے میں سامنے آئے جو پانچ ہزار کے لگ بھگ تھے۔اب ہمیں چوتھی لہر کا سامنا ہے جوزیادہ خطرناک سمجھی جار ہی ہے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر احتیاطی تدابیر کے نتیجے میں فی الحال یہ وائرس زیادہ نہیں پھیلا ہے مگربے احتیاطی کی صورت میں یہ بہت جلد پھیل جائے گا۔وفاقی وزیر اور این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے عوام سے گزارش کی ہے کہ ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنائیں اور اپنی ویکسین بروقت لگوائیں تاکہ وائرس کی اس چوتھی لہر کو روکنے میں کامیاب ہو سکیں جب کہ حکومتی سطح پر بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ حکومتی اقدامات اور ایس او پیز پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے باعث پاکستان میں کورونا کے کیسز میں کافی حد تک کمی آئی ہے مگر پھر بھی ہمیں مزید احتیاط کی ضرورت ہے مگر اپنے حالیہ ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کیسز مثبت آنے کی شرح میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ڈاکٹر فیصل سلطان نے مزید کہا کہ ماسک کا استعمال، رش والے مقامات سے بچنا اور ویکسی نیشن کاعمل اس سلسلے میں زیادہ اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر فیصل سلطان کی جانب سے کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کی اطلاع حکومتی یا انتظامی شخصیات کی جانب سے اس سلسلے میں کی گئی پہلی وارننگ نہیں ہے۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اسلام آباد کے سربراہ ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے بیان دیا ہے کہ پاکستان میں چوتھی قسم کے وائرس بڑھنے کے خدشات موجود ہیں‘اگرچہ پاکستان نے پچھلی تین قسم کے وائرس کے خلاف زبردست حکمت عملی اپنانے سے اس کو کافی حد تک کنٹرول میں رکھا۔ انٹرنیشنل جریدے دی اکانومسٹ کے مطابق پاکستان کو کووڈ 19 سے کامیابی سے نمٹنے والے ممالک ہانگ کانگ اور نیوزی لینڈ کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا گیاہے۔اس وقت پاکستان میں ویکسی نیشن مہم بھی تیزی سے جاری ہے اور روزانہ ہر طبقے کے لوگوں کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔ ان ویکسین میں چین سے درآمد شدہ سائنو فارم اور سائنو ویک ویکسین کے نتائج اچھے ہیں اور ان کے سائیڈ ایفیکٹس بھی نہیں ہیں یا بہت کم ہیں۔ جب کہ یورپ اور امریکہ سے درآمد شدہ ویکسینز مثلا ً موڈرنا، فائزر اور ایسٹرا زینیکا کے بہت سارے سائیڈ ایفیکٹس رپورٹ ہوئے ہیں۔حکومت پاکستان کی کوششوں سے اس وائرس کے کنٹرول میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور اس لئے اب 15 ستمبر سے سارے کاروبار، دفاتر اور تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں اور لاک ڈاؤن کا خاتمہ ہو گیا ہے۔وزیراعظم عمران خان اس معاملے میں کافی متحرک اور سنجیدہ ہیں کہ کسی بھی طریقے سے وباء کی روک تھام کی جا سکے۔