سوال در سوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغان مہاجرین کا ایک جم غفیر پہلے سے ہی وطن عزیز میں رہائش پذیر ہے اب اگر ان میں مزید چار پانچ لاکھ افغان مہاجرین کا اضافہ ہو جاتا ھے تو ان کو کون سنبھالے گا؟کیا ہم دوبارہ وہی غلطی کرنے جا رہے ہیں جو کہ ہم نے انیس سو اسی کی دہائی میں کی تھی؟حکومت نے بظاہر افغانستان سے آنے والے ممکنہ نئے افغان مہاجرین کیلئے چترال اور شمالی وزیرستان میں عارضی رہائشی کیمپوں کیلئے جگہوں کا تعین تو کر دیاہے پر اس کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ لوگ ان کیمپوں سے کھسک کر ہمارے شہروں کا رخ نہیں کریں گے؟ کیا ان کو شہروں کی طرف جانے سے روکنے کیلئے حکومت نے کوئی میکنزم مرتب کیا ہے؟ افغانستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ امریکہ اور نیٹو ممالک کا کیا دھرا ہے اب امریکہ اور نیٹو کے ممالک کا فرض بنتاہے کہ وہ ان افغان مہاجرین کو اپنے ہاں بسانے کا بندوبست کریں اورہم جیسے تیسری دنیا کے کسی ملک پر مزید مالی بوجھ نہ ڈالا جائے کہ ہم خود بیرونی قرضے لے کر بمشکل اپنی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہے ہیں ہماری وزارت خارجہ کو اس معاملے میں کھل کر بات کرنی چاہئے۔ یہ ضروری نہیں کہ افغانستان کے موجودہ بحران میں ہم امریکہ کی ہر جائز اور ناجائز بات کو مانیں،اگرآج ہم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ہم اپنے بارڈر کھول دیں کہ افغان مہاجرین کی نئی کھیپ پاکستان میں داخل ہو سکے تو ہم کو چاہئے کہ ہم اس کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیں اور اسے غیر مبہم الفاظ میں کہہ دیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس بات کی تسلی کون کرے گا کہ یہ جو نئے افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوں گے ان میں بھارتی ایجنٹ شامل نہیں ہیں۔ اگلے روز گوادر کے قریب جو خود کش حملہ ہوا ہے وہ نہایت ہی افسوس ناک واقعہ تھا تمام محب وطن پاکستانی چاہتے ہیں کہ چین نے پاکستان کے اندر سی پیک کا جو ترقیاتی منصوبہ شروع کیا ہوا ہے وہ بخیر اپنے انجام تک پہنچے کیوں کہ اگر اس سے جہاں چین کی معیشت بہت ترقی کرے گی تو وہاں پاکستان کی معیشت کو بھی اس سے کافی فا ئدہ پہنچے گا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سی پیک کے منصوبے میں جہاں جہاں ترقیاتی کام اس ملک کے اندر ہورہا ہے وہاں حکومت پاکستان نے ایک منظم قسم کا سکیورٹی کا سسٹم نافذ کر رکھا ہے کہ جس میں اس منصوبے پر کام کرنے والے ملکی اور غیر ملکی افراد کی جان کی حفاظت کی جاتی ہے ہر ان اقدامات کو مزید فول پروف بنانے کی ضرورت ہے ہمارے دشمن آئندہ بھی اسی قسم کی حرکتیں کرنے سے باز نہیں آئیں گے،  اس سلسلے میں احتیاط کی ضرورت ہے اور ایک منظم اور مربوط نظام تشکیل دینا بھی ضروری ہے۔