بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے گورنر جنرل تھے کراچی میں ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کی آبادکاری کے لئے انہیں پلاٹ یا گھر الاٹ کئے جارہے تھے اور جو کمیٹی اس کام پر مامور تھی اس کے چیئرمین اس وقت کے کراچی کے کمشنر سید ہاشم رضا تھے‘ایک پرانا مسلم لیگی ورکر جسے قائداعظم اچھی طرح جانتے تھے کہ اس کی تحریک پاکستان میں بڑی قربانیاں تھیں نے قائد اعظم کو ایک درخواست دی کہ وہ ذرا کمشنر کراچی کو سفارش کر دیں کہ اس کو گھر جلد الاٹ ہو جائے تو بانی پاکستان نے اسے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اس قسم کے کاموں میں سفارش نہیں کر سکتا یہ کمشنر کا کام ہے وہ میرٹ پر الاٹمنٹ کر رہا ہے اور میں اس میں مداخلت کرنا نہیں چاہتا اسی طرح جب بانیِ پاکستان کوئٹہ میں زیارت کے مقام پر صاحب فراش تھے تو ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس متعین تھی جس کا تعلق پنجاب سے تھا ایک دن اس نرس نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ وہ سیکرٹری ہیلتھ کو کہہ کر اس کا تبادلہ لاہور کرا دیں جس کے جواب میں بانی پاکستان نے اس سے یہ کہا کہ یہ ان کا کام نہیں کہ وہ سرکاری ملازمین کے کاموں میں مداخلت کریں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک کے محکمے اس لئے برباد ہوئے ہیں کہ ان میں حد درجہ سیاسی مداخلت ایک عرصے سے ہو رہی ہے آپ نے یہ بات ضرور محسوس کی ہو گی کہ جب بھی کسی سنگین قسم کے جرم کا واقعہ ہوتا ہے یا کسی اہم پبلک ایشو پر عوام کسی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو جن سرکاری محکموں کا کام ہی یہی ہے کہ وہ ان میں فوری مداخلت کر کے متاثرہ عوام کی داد رسی کریں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور وہ اس وقت حرکت میں آتے ہیں کہ جب میڈیا ان مسائل کو اجاگر کرتا ہے یا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے نوٹس میں کسی ذریعہ سے وہ واقعات لائے جاتے ہیں، انگریزی زبان میں ایک لفظ ہے initiative جس کا مطلب ہے پہل کرنا یا فوراً کسی ایکشن پر ری ایکشن کرنا،یہ پہل کرنے والی خاصیت ایک عرصے سے ہمارے سرکاری اہلکاروں میں عنقا ہو چکی ہے جب سرکاری ملازمین سے پوچھا جائے کہ وہ کیوں متاثرہ عوام سے اس قسم کی بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ قانون پر چلنے کی کوشش کریں تو آج کل ملزمان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ وہ فوراً سے پیشتر کسی سیاسی پارٹی کے نمائندے کسی رکن اسمبلی یا کسی وزیر سے کہہ کر ان پر دبا ؤڈالنا شروع کر دیتے ہیں اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ الٹا دس میں سے نو کیسز میں اگر وہ سیاسی دباؤ میں نہ آئیں تو ان کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا جاتا ہے اس لئے انہوں نے بھی اب یہ ٹھان لی ہے کہ جو حکم اوپر سے اے اس کی تعمیل کی جائے،یہ جو دن دیہاڑے کھلے آسمان کے نیچے سڑکوں اور پبلک پارکوں میں اوباش قسم کے لڑکے آئے روزخواتین کے ساتھ نازیبا سلوک کر رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت والدین ہم لوگ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے،اس لئے جتنا قصور ان نوجوانوں کا ہے اتنا ہی ان کے والدین کا بھی ہے کہ جنہوں نے اپنے طرز عمل سے ان کو اخلاقیات کا سبق صحیح طریقے سے نہیں پڑھایا ،خالی خولی تعلیم عام کرنے سے بات نہیں بنے گی،جب تک تعلیم کے ساتھ ساتھ اس ملک کے بچوں کو اعلیٰ اخلاقی قدروں سے نہیں سنوارا جائے گا ہم ایک شائستہ فرض شناس دیانت دار اور قانون کا احترام کرنے والی قوم کی تشکیل نہیں دے پائیں گے۔