نیا سیاسی منظرنامہ

اب چونکہ افغانستان میں دھیرے دھیرے وہ گرد بیٹھ رہی ہے کہ جو ایوان اقتدار میں تبدیلی کے کارن اٹھی تھی اور اندرونی حالات بہتری کی جانب جا رہے ہیں، کابل میں معمولات زندگی بھی بحال ہوگئے ہیں جس کی بنیادی وجہ دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے 2 دن بعد طالبان نے سرکاری ملازمین پر زور دیا تھا کہ وہ کام پر واپس آجائیں۔عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان نے پراعتماد ہو کر معمول کی زندگی کا آغاز کر نے پر زور دیا،ادھرطالبان کے سیاسی نائب ملا عبدالغنی برادر نے بھی کہا ہے کہ تمام مرد اور خواتین سرکاری ملازمین کو اپنی ذمہ داریوں پر واپس آنا چاہیے، ہم عوام کی خدمت کے لئے پرعزم ہیں اور عوام کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔اس لئے یہ مناسب موقع ہے کہ ان معاملات کی طرف طالبان کی حکومت فوراً سے پیشتر توجہ دے کہ جن کی وجہ سے ماضی میں اس خطے کا امن تاراج رہا‘ کابل کے نئے حکمرانوں کا یہ بیان نہایت خوش آئند ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین دہشتگردی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق آئندہ چھ ماہ میں اس بات کا پتہ لگ جانا چاہئے کہ نئی افغان حکومت اس بیان کو عملی جامہ پہنانے میں کس قدر کامیاب رہتی ہے‘چھ ماہ کا عرصہ ایک طویل مدت ہوتی ہے اس میں پتہ لگ جانا چاہئے کہ کیا افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف کسی تخریبی کاروائی کے لئے اس پیریڈ میں استعمال ہوئی ہے یا نہیں‘تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جس طرح اشرف غنی روز اول سے ہی پاکستان کے خلاف تھا بالکل اسی طرح دیگر رہنما بھی پاکستان کے مقابلے میں بھارت کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں لہٰذا اگر دیگر رہنماؤں نے نئی افغانستان کی حکومت میں بھی اپنے لئے کوئی جگہ بنا لی تو بھارت کے لئے ایک مرتبہ پھر یہ موقع پیدا ہو جائے گا کہ وہ افغانستان کے نئے ارباب بست و کشاد تک اپنی رسائی حا صل کر لے اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے جذبہ ایمانی سے امریکہ جیسی سپر پاور سے لڑ کر یہ جنگ جیتی ہے پر  کیا اب وقت نہیں آگیا ہے کہ ہم اپنی معیشت کو اس ڈگر پر چلائیں کہ جس طرح چین چلا رہا ہے‘مسلمانوں کا شجاعت میں جواب نہیں پر صرف سوکھی شجاعت سے بھی تو ہر وقت کام نہیں چلتا‘ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی معیشت پر اغیار کا قبضہ ہے‘سائنسی ایجادات اغیار کر رہے ہیں‘دنیا بھر میں ہر مضمون میں ریسرچ وہ کر رہے ہیں تعلیم کے میدان میں وہ ہم سے کوسوں آگے ہیں‘جدید جنگی سازو سامان ان کے پاس ہے‘ خدا نے طالبان کو ایک نادر موقع فراہم کیا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک مثالی حکومت کو عمل میں لائیں جس میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں جیسی خصوصیات کے حامل صالحین ہوں اس قسم کے گروہ کا غلبہ آئندہ دو برسوں میں کم از کم افغانستان کی حد تک تو ضرور ہو جانا چاہئے۔