اہم قومی و بین الاقوامی امور۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا بھر کے سیاسی مبصرین امریکی صدر پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اگر افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا سے پہلے اپنے اتحادیوں سے باہمی صلاح و مشورہ کرتے اور اس ضمن میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرتے تو کابل ائر پورٹ ہر حال میں ہونے والا خون خرابہ شاید نہ ہوتا اس الزام میں کافی وزن دکھائی دیتا ہے امریکہ اب داعش پر اپنا غصہ نکال رہا ہے اورداعش کو امریکہ کے ہاتھوں جتنی بھی مار پڑے گی اس پر طالبان بھی خوش ہوں گیکیونکہ اب ان کو اس بات کا خدشہ ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد وہ داعش کے حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ادھر داعش والے اب یہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان نے امریکہ سے معاہدہ کر کے کوئی اچھا کام نہیں کیا بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کابل ائر پورٹ پر جو حال ہی میں دھماکے ہوئے ان میں امریکہ کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ امریکہ اپنے اس فوجی سازو سامان کو تباہ کرنا چاہتا ہے جو طالبان کے ہاتھ لگا ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ کہیں وہ چین یا روس کے ہاتھ نہ لگ جائے۔وقت بدل چکا ہے حالات دن بدن مختلف ہوتے جا رہے ہیں۔ روایتی جنگوں کا دور لدھ چکا آج کل دشمن ممالک ایک دوسرے کو زک پہنچانے کیلئے mercenaries کا یعنی کرائے کے فوجی استعمال کرتے ہیں جیسے کہ بلیک واٹرز وغیرہ اس قسم کے کرائے کے فوجیوں کے مغرب میں باقاعدہ تربیت یافتہ ریٹائرڈ فوجیوں پر مشتمل ادارے بنے ہوئے ہیں۔ جن کی خدمات مستعار لے کر انہیں دشمن ممالک میں انتشار پھیلانے کا ٹاسک دیا جاتا ہے جس کیلئے وہ حکومتوں سے اچھی خاصی رقم بھی وصول کرتے ہیں گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ نے افغانستان میں اٹھارہ ہزار کے قریب ڈیفنس کنٹریکٹرز کے نام سے جو لوگ مختلف کاموں پر لگا رکھے تھے وہ اسی کرائے کے فوجی کے زمرے میں آتے ہیں جس کا ذکر ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے تقریبا ًتقریبا ًتمام سپرپاورز نے آج کل خارجی امور میں یہ وطیرہ اپنا رکھا ہے کہ وہ اب اپنے دشمن ممالک کے خلاف روایتی جنگ نہیں کرتیں وہ اب انہیں گرانے کیلئے کرائے کے فوجیوں کے توسط سے غیر روایتی حربے استعمال کرتی ہیں جس حکومت کو غیر مستحکم کر کے گرانا مقصودہو پہلے مرحلے میں اس ملک کے عوام کو اپنی حکومت سے بد ظن کرنے کیلئے ان کے خلاف میڈیا کے ذریعے ایک منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور جب حکومت دشمن لاوا پک جاتا ہے تو پھر اس ملک کے اندر جگہ جگہ بلوے کرائے جاتے ہیں اور انتشار پھیلا کر مختلف طریقوں سے اس حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا جاتا ہے اس قسم کے واقعات گزشتہ عشرے میں ہم دنیا کے کئی ممالک میں دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت جنوبی ایشیاء اہم دور سے گزر رہا ہے اور اس میں جہاں ایک طرف امن کے امکانات روشن ہو رہے ہیں وہاں کچھ معاملات مخدوش حالات کی طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان سے نکل کر خطے کا پیچھا نہیں چھوڑنا بلکہ وہ پینترا بدل کرطاقت کے کھیل میں شریک ہوگا۔ چین روس اور خطے کے ممالک اگر ایک طرف ہوں گے تو امریکہ،بھارت اور اس کے چند دیگر اتحادی دوسری طرف۔یعنی کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ افغانستان کا راؤنڈ امریکہ کی بجائے چین اور روس جیت چکے ہیں آگے کیا ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم امریکہ اب افغانستان میں شکست کا بدلہ لینے کیلئے کوئی اور میدان ضرور گرم کریگا۔