شعبہ تعلیم کی توجہ طلب حالت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی بھی معاملہ فہم شخص کیلئے اس امر کے بارے میں کوئی شک و شبہ اور دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ہمارے نظام تعلیم اور تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہونگے اور نہ ہی ان کے ملازمین کی حالت سدھر سکتی ہے جب تک موجودہ ہوشربا مہنگائی اور اعلیٰ تعلیم اور جدید تحقیق کے فروغ کی ضرورت کے مطابق تعلیمی بجٹ میں مطلوبہ اضافہ نہ کیا جائے بلاشبہ کہ یونیورسٹیاں آئینی طورپر صوبوں کو دی گئی ہیں لیکن کیا جامعات اس بات میں حق بجانب نہیں کہ جب انہیں صوبوں کے حوالے کیا گیا تو وفاقی حکومت نے بجٹ اور گرانٹ کو کیونکر اپنے پاس رکھا؟ایسے حالات میں کہ جب صوبے کے وسائل پر پہلے ہی اضافی بوجھ پڑا ہوا ہے اور ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی سفر کو تیز کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے جس پر خاطر خواہ وسائل خرچ ہورہے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں وفاق کی طرف سے خصوصی سپورٹ کی ضرورت ہے۔جہاں تک جامعات کا تعلق ہے تو خیبرپختونخوا میں تو پہلے سے ایک عالیشان ایچ ای سی ریجنل سنٹر دارالحکومت کے نہایت پوش علاقے میں قائم ہے اسے مزید ہر طرح سے فعال بنا کر تمام تر امور بہتر طور پر نمٹائے جا سکتے ہیں اس طرح نہ صرف اربوں روپے کی بچت ہوگی بلکہ یونیورسٹیاں بھی صوبے اور وفاق کی دو کشتیوں سے اتر کر قدرے سکھ کا سانس لینے کے قابل ہو جائینگی ہاں اگر اعلیٰ تعلیم کمیشن اسلام آباد کے ملازمین کو سنبھالنا وفاقی حکومت کیلئے مشکل ہو تو انہیں ہرصوبے کے ریجنل سنٹر اور ساتھ وفاقی وزارت تعلیم میں بھی بھجوایا جاسکتا ہے‘ جامعات کی یہ استدعا بغور سننے اور اس پر عمل ہونے کی متقاضی ہے کہ انہیں دہری مشکلات سے نجات دی جائے‘ اعلیٰ تعلیم ادارے صوبوں کے حوالے کر کے دوراہے پر چھوڑ  دینے کا اقدام کس طرح بھی بہتر نتائج کا حامل ثابت نہیں ہوا ہے‘ جہاں تک صوبائی خود مختاری کی بات ہے تو اس کیلئے دوسرے کئی تقاضوں اقدامات اور لوازمات پر بھی عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی حکومت جامعات کی حالت کو بہتر بنانے اور انہیں مالی لحاظ سے خودمختار اور مستحکم کرنے پر بھرپورتوجہ دے رہی ہے  اور اس حوالے سے دور رس اہمیت کے حامل اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں جن کے نتائج بھی جلد سامنے آجائیں گے۔تاہم اس وقت جامعات مشکل دو ر سے گزر رہی ہیں۔ جبکہ گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران ہماری تعلیم اور تعلیمی ادارے کورونا کے ہاتھوں جس زبوں حالی کا شکار ہے انتظامیہ اور ملازمین کے درمیان خلیج اور آئے روز احتجاج نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے صاحب الرائے لوگوں کا کہنا ہے کہ مسائل اور مشکلات لاینحل نہیں بشرطیکہ  حکومت اعلیٰ تعلیمی بجٹ میں ناگزیر اضافہ کرے اور صوبائی حکومت اپنے طور پر ہر ممکن قدم اٹھا بھی رہی ہے تاہم زیادہ بہتر ہوگا کہ اعلیٰ تعلیم کا بجٹ اور جامعات کی گرانٹ وفاق سے لیکرصوبائی حکومت اپنا بوجھ ہلکا کرے اور جامعات کو اعتماد میں لیکر اصلاحات اور بہتری کی جانب آگے بڑھے۔ہاں البتہ حکومت کی یہ بات قابل غور اور بجا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں  کے اخراجات اور مراعات پر نظرثانی کی ضرورت ہے مگر جامعات ملازمین کا یہ موقف بھی یکسر رد نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت یونیورسٹیوں کے گریڈ20 اور21 کے ملازمین اور سیکرٹریٹ کے گریڈ18 اور19 کے آفیسرز کی تنخواہوں اور مراعات کا بغور جائزہ لیکر غیر جانبدارانہ موازنہ کرے تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی درحقیقت تعلیم کا شعبہ تو ویسے بھی بدحالی کا شکار تھا مگر کورونا نے مزید ابتری سے دوچار کردیا ہے طلباء کا ایک سال ضائع ہوا جبکہ دوسرے پر خطرات منڈلا رہے ہیں اور پھر ایسے میں تعلیمی بجٹ میں اضافے کی بجائے کم کردیا گیا ساتھ ہی کورونا ریلیف پیکیج میں بھی تعلیم کا شعبہ نظرانداز کیا گیا یہ سوچ معدوم رہی کہ احتیاطی تدابیر کی پاسداری پر جو مالی اخراجات ہونگے وہ کہاں سے آئینگے؟ اہل نظر کا یہ نظریہ وقت کا بنیادی تقاضا ہے کہ دوسرے اخراجات کم کرکے تعلیم کو بچانا ہوگا کیونکہ جس قوم کے پاس تعلیم نہیں تو سمجھ لیں کہ ان کے ہاں کچھ بھی نہیں یعنی وہ مفلس ہے۔