درپیش چیلنجز اور پاکستان کی حکمت عملی۔۔۔۔۔

حسب توقع افغانستان کے حالات پاکستان پر اثر انداز ہونے لگے ہیں، تاہم توقع کی جارہی ہے کہ جیسے ہی وہاں پر گورننس کے معاملات میں بہتری آنی شروع ہوگی پاکستان سمیت خطے کے مجموعی حالات میں اس کے باوجود مثبت تبدیلی رونما ہوگی کہ عالمی پراکسیز کے ساتھ اب داعش بھی کابل کے حالیہ خوفناک حملے کے بعد ایک چیلنج کی شکل اختیار کر گئی ہے‘یہ تقاضا کرنا یا تاثر قائم کرنا کہ بیس، چالیس برسوں کے مسائل چند ہفتوں میں حل ہوں گے یا افغانستان امن کا گہوارہ بن جائے نہ صرف زیادتی ہے بلکہ ایک احمقانہ تصور بھی ہے اسکے باوجود بعض چیلنجز اور خدشات سے دوسروں کے ساتھ افغان طالبان اور پاکستان بھی پریشان ہیں۔ ان خدشات میں سب سے بڑا خدشہ افغانستان اور پاکستان کو بدلتے حالات میں پراکیسز اور سپائلرز کے حملوں سے محفوظ بنانا اور اعتماد سازی کوقائم کرنا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے گذشتہ روز بدلتے حالات اور چیلنجز پر کھل کر تفصیل کے ساتھ پاکستان کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی سمیت کسی بھی قوت سے نمٹنے کیلئے درکار اقدامات کئے گئے ہیں اور افغان طالبان بھی یقین دہانی کراچکے ہیں کہ کسی کو پاکستان کے خلاف کسی کاروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاک افغان بارڈر کو ممکنہ حد تک محفوظ بنایا جاچکا ہے اور مہاجرین کی آمد بھی ماضی کی طرح متوقع نہیں ہے جبکہ حالیہ تبدیلی کے بعد بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھی نمایاں کمی واقع ہوگی‘ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ کابل کے حالیہ حملے سمیت اب تک جو کچھ ہوتا آیا ہے اس کی زیادہ ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے، تاہم بعض حلقے اب بھی پرانے بیانئے سے چمٹے ہوئے ہیں اور ان کو بدلتے حالات کا ادراک نہیں۔ امریکہ سے محض ایک ائرپورٹ کو سنبھالا نہیں جا سکا جبکہ اس کے حامی محض دو ہفتوں کے عرصے کے دوران طالبان سے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اتنے چیلنجز اور پراکیسز کے باجود تمام مسائل حل کر دینگے۔ جو امریکہ کل تک اپنے حامیوں سمیت پاکستان پرہر مسئلے کی ذمہ داری ڈال رہا تھا وہ آج بوجوہ اپنے فوجیوں، کارکنوں اور حامیوں کو نکالنے اورٹھہرانے کیلئے اسی پاکستان کا محتاج ہوگیا ہے اور روزانہ متعدد امریکی، عالمی عہدیداران پاکستان کے حکومتی عہدیداران سے رابطے کرکے تعاون طلب کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شیشے کے گھروں میں بیٹھی افغان اشرافیہ اور ان کے حامی سوشل میڈیا پر یکطرفہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، حالانکہ عام افغانی نہ صرف پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ پاکستان کیلئے اب بھی بڑا چیلنج سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی اور داعش سمیت دوسرے گروپوں کے حملوں سے نمٹنا اور خود کو بچانا ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ بعض حملے کراکر نہ صرف پاکستان کو دباؤ میں لایا جائے بلکہ افغان طالبان اور پاکستان کے نسبتاً بہتر تعلقات کو بد اعتمادی میں تبدیل کیا جائے اور اسلئے فریقین کو بہت محتاط اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ کچھ حلقوں کی کوشش ہے کہ یہ تاثر دیکر لوگوں کو خوفزدہ کیا جائے کہ خطے میں 90کی دہائی کی طرح صورتحال پیدا ہونے والی ہے حالانکہ زمینی حقائق نہ صرف ماضی کے مقابلے میں یکسر مختلف ہیں بلکہ پاکستان کی ریاستی پالیسیاں اور اقدامات بھی دوسرے ممالک کے برعکس کافی اطمینان بخش ہیں۔ حالات کا غلط رخ پیش کرنے کے رویے سے گریز اب سب کی بہتری ہے اور ایک قومی سوچ جاری رکھنی چاہئے کہ قومی اور علاقائی قیادت کو پھر سے اعتماد میں لیا جائے اور جو چند مٹھی بھر عناصر خوف اور بد گمانی پھیلانے میں مصروف ہیں ان کا راستہ روکا جائے۔