دنیا میں آجکل افغانستان کے بارے میں جتنا لکھا اور پڑھا جا رہا ہے شاید ہی کسی اور ملک کے بارے میں پڑھا اور لکھا جا رہا ہو اس کالم کے مخصوص حجم کی وجہ سے ہم زیادہ دور نہیں جاتے ہم صرف سال اٹھارہ سو سے لے کر تا دم تحریر اس ملک کے حکمرانوں کے بارے میں ایک ہلکا سا تذکرہ کرنا چاہیں گے اس تین سو اکیس سال کے عرصے میں افغانستان پر ملا جلا کر تقریباً اٹھائیس حکمرانوں نے حکومت کی ان میں سے 13حکمرانوں کو بزور شمشیر قتل کر کے اقتدار سے علیحدہ کیا گیا جبکہ اسی تعداد میں حکمرانوں کو بغیر قتل کئے زور زبردستی سے اقتدار سے ہٹایا گیا حامد کرزئی اور اشرف غنی کو ہم نے اس گنتی میں شمار نہیں کیا اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ 1793سے لیکر 1801تک زمان شاہ نامی ایک شخص کی افغانستان پر حکومت تھی اسے اس کے بھائی محمود شاہ نے پہلے اندھا کیا اور پھر اسے اقتدار سے علیحدہ کیا زمان شاہ کی موت بطور قیدی لدھیانہ کی جیل میں ہوئی کہ جو بھارت میں واقع ہے محمود شاہ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ کچھ اس طرح ہے اس کے دور حکومت کو آپ دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں پہلے حصے میں اس میں 1801سے لیکر 1803تک افغانستان پر حکومت کی جس کے بعد شاہ شجاع نامی ایک شخص نے اسے اقتدار سے علیحدہ کر کے قید کر دیا شاہ شجاع 1803 سے لیکر 1809 تک افغانستان کا حکمران رہا حالات نے پلٹا کھایا اور محمود شاہ نے ایک مرتبہ پھر 1809سے 1818تک بادشاہی کی 1818اور 1823کے درمیان علی شاہ اور ایوب شاہ نے افغانستان پر حکومت کی پر یہ دو بھائی آپس میں لڑتے تھے اسی کی وجہ سے بارک زئی قبیلے نے ان سے اقتدار چھین لیا اس وقت سے لے کر تا دم تحریر حکمرانوں کے ناموں کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے کہ جنہوں نے مختلف ادوار میں افغانستان پر حکومت کی ان ناموں میں جو نام قابل ذکر ہیں وہ یہ ہیں۔ عظیم خان‘ امیر شیر علی خان‘ سردار ایوب خان‘ امیر عبدالرحمن خان‘ امیر حبیب اللہ خان‘امیر امان اللہ خان‘ حبیب اللہ خان‘نادر شاہ‘ شاہ ظاہر شاہ‘ سردار داؤد‘ نور محمد ترکی‘ حفیظ اللہ امین‘ ببرک کارمل‘ ڈاکٹر نجیب اللہ‘ حامد کرزئی‘ اشرف غنی وغیرہ۔اگر آپ ان حکمرانوں کے ادوار حکومت پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان میں سے غالبا ظاہر شاہ کا دور ایسا تھا کہ جو چالیس برس کے عرصے پر محیط تھا اور ہر لحاظ سے پر امن تھا انہوں نے کمال دور اندیشی بر داشت‘بھائی چارے اور سیاسی فہم و فراست کے ساتھ مختلف زبانیں بولنے والے قبائل کو اعتماد میں رکھا وہ جو بھی سیاسی اور انتظامی قدم اٹھاتے تو پہلے ایک بڑے جرگے کا اہتمام کرتے جسے لویا جرگہ کہا جاتا اس جرگے میں وہ تمام قبائل سے گفت و شنید کرنے کے بعد فیصلے کرتے اور یہی وجہ تھی کہ ان کے دور میں کبھی بھی افغانستان کے اندرونی سیاسی محاذ پر کوئی چپقلش دیکھنے میں نہیں آتی۔ امن عامہ کا یہ عالم تھا کہ کابل میں ہر سال اگست کے ماہ میں جشن کابل کے نام سے ایک ہفتے پر محیط اینٹرٹینمنٹ کے پروگراموں کا اہتمام ہوا کرتا تھا جس میں برصغیر سے شعراء‘ گلوکار اور موسیقار شرکت کرتے اور کابل میں کھلے اجتماعات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور اس جشن میں شرکت کیلئے بھارت اور پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ کابل جاتے‘خدا کرے کہ افغانستان میں امن کا دور شروع ہو اور یہ موقع طالبان کو ملا ہے‘ طالبان نے افغانستان میں اپنے نئے دور کی شروعات تو اچھے پیرائے میں کی ہے اب خدا کرے کہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھے اور یاں پر پائیدار امن قائم ہو۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ