سچی اور کھری باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان کا علم تو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ سکتا ہے لیکن حکمت میں صدیوں بعد بھی اضافہ نہیں ہوتا‘ بچے اور احمق دونوں سچ بولتے ہیں اور وہ اپنے اس اخلاص اور بے ساختگی میں خوشی محسوس کرتے ہیں‘کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جب کوئی روح انسانی شکل میں اس دنیا میں وارد ہوتی ہے تو وہ پیدائش کے عمل سے لے کر موت تک کن کن مراحل سے گزرتی ہے۔ کن کن احساسات کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ شکم مادر میں ہوتی ہے تو وہ اپنی ماں کے بطن میں آرام دہ نیند کا لطف اٹھا رہی ہوتی ہے پر جب اس کا دنیا میں ظہورہوتا ہے تو یکدم اس میں سانس کو دوڑایا جاتا ہے جس سے اسے تکلیف ہوتی ہے اور وہ چلا اٹھتی ہے جب اس کی انکھوں میں روشنی پڑتی ہے تو اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں جب اس کے کانوں میں شوروغل کی آواز پڑتی ہے تو وہ گھبرا جاتی ہے بچپنے کو کھیل کود کی عمر کہا گیا ہے اس لئے بعض بچے کبھی جوان نہیں ہوتے اور کچھ کبیر سن کبھی بوڑھے نہیں ہوتے‘جوانی پر اعتماد ہوتی ہے وہ ایڈونچر اور جوش کو خوراک سے زیادہ پسند کرتی ہے چونکہ لامحدود اور بے پناہ قوت اور انرجی سے اس کا پیمانہ لبریز ہوا ہوتا ہے اس لیے وہ مبالغہ آمیز شاندار اور لا محدود کاموں میں ہاتھ ڈالتی ہے اور ان میں خطرناک حد تک رسک لیتی ہے زندگی کا المیہ یہ ہے کہ وہ انسان کو اس وقت حکمت سے آشنا کرتی ہے کہ جب اس نے اس سے اس کی جوانی چرا لی ہوتی ہے۔ تاریخ میں ایک ہی چیز اٹل ہے اور وہ ہے زوال اور زندگی میں ایک ہی چیز یقینی ہے اور وہ ہے موت‘ تجربے کا کوئی ثانی نہیں زندگی میں کئی چیزیں صرف کتابیں پڑھ کر حاصل نہیں کی جاسکتیں ان کو سمجھنے کیلئے ایک وقت درکارہوتا ہے‘ ایک عمر کی ضرورت ہوتی ہے اسی لئے بزرگوں نے کہا ہے کہ تجربہ حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی شارٹ کٹ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا‘ کسی بھی معاشرے میں وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مدنظر اصلاح کی ہر وقت ضرورت پڑتی رہتی ہے آج اس ملک میں کرنے کے تو کئی کام ہیں جن کا ذکر اس کالم کے محدود حجم کے پیش نظر چند سطور میں نہیں کیا جا سکتا پر پھر بھی ہم اس ضمن میں چند معروضات اپنے قارئین کی خدمت میں درج ذیل سطور میں پیش کرنے کی جسارت کریں گے‘ دینیات کے اندر اخلاقیات کا جو درس موجود ہے اسے سکولوں اور ہر تعلیمی درسگاہ میں اُجا گر کر کے پڑھایا جائے۔ اخلاقیات کی تعلیم کنڈر گارٹن سے لے کر پی ایچ ڈی کے مرحلے تک دینی ضروری ہے طالب علموں کو بے راہ روی، منشیات تمباکو اور شراب نوشی اور اس قسم کی دیگر برائیوں کے انسانی جسم پر پر خراب اثرات کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے‘غربت میں کمی لا کر اور تعلیم کو عام کر کے جرائم کی شرح میں کمی کی جاسکتی ہے‘ کیا ہی اچھا ہو اگر ملک کی بیروزگار آبادی کو حکومت سوشل یوٹیلیٹی اور ماحولیاتی اصلاحات کے پروگراموں میں استعمال کرے اسی سلسلے میں میں مزید سفارشات اور گزارشات آئندہ کسی کالم میں ہم تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے یار زندہ صحبت باقی۔