عوام دوست معاشیات ۔۔۔۔۔۔

1917ء سے لے کر 1932 ء تک روس خلفشار کا شکار تھا اس وقت کے روسی رہنماوں نے جمہوریت کو سائڈ لائن کیا اور وہاں ایک بے رحم قسم کی ڈکٹیٹرشپ قائم کی کمیونزم کی معاشی تھیوری یوں تو کارل مارکس اور اینگلز کے اذہان کی اختراع تھی پر اس کو ماضی قریب میں جس شخص نے عملی جامہ پہنایا وہ تھا لینن۔ اس نے اس تھیوری پر عمل پیرا ہو کر تھوڑے ہی عرصے میں روس کو دنیا کی ایک مضبوط سیاسی اور معاشی قوت بنا دیا پچاس سال کے عرصے میں روس دنیا کا ایک مضبوط ترین ملک بن گیا اس دوران حالانکہ روس قحط کا شکار بھی ہوا اس میں بغاوتیں بھی ہوئیں معاشی اور سیاسی میدان میں اس سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس عرصے میں روس نے ہر میدان میں بڑی ترقی کی دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج کی کامیابی میں بھی روس نے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا یہ ٹھیک ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ میں بنے ہوئے اسلحہ نے اپنا کمال دکھایا تھا پر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ جس جانفشانی سے روسی اس جنگ میں لڑے وہ بھی اپنی جگہ ایک مثال ہے امریکہ کے اس وقت کے صدر روزویلٹ بڑے دور اندیش اور جہاں دیدہ شخص تھے جن کی دنیا کی تاریخ پر گہری نظر تھی انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ کمیونزم دنیا میں بڑی تیزی سے غریب ممالک کے عوام کو اپنا گرویدہ بنا رہا ہے اور اس کے آگے اگر بند نہ باندھا گیا یا اس کے متبادل کوئی دوسرا عوام دوست معاشی ڈھانچہ تشکیل نہ دیا گیا تو وہ بہت جلد دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے چناچہ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے روزویلٹ نے20 ویں صدی میں سوشل ویلفیئر سٹیٹ کے کانسیپٹ کو فروغ دیا جسے بعد میں امریکی صدور ٹرومین اور جانسن نے آ گے بڑھایا  کمیونزم کا نظام ہے یا پھر سرمایہ دارانہ نظام‘ دونوں میں جہاں اچھائی ہے تو وہاں نقص بھی ہے۔ عقلمند حکمرانوں نے ان دونوں معاشی نظاموں کی اچھائیاں اپنائیں اور ان میں موجود نقائص سے احتراز کیا اور ان دونوں کو یکجا کر کے ایک حسین امتزاج پیدا کیا اس ضمن میں ہم چین کی تازہ ترین مثال پیش کریں گے جب 1949 ء میں ماو زے تنگ اور ان کے کامریڈ ایک طویل عرصے پر محیط مہم کے بعد چین میں عوامی راج قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو شروع شروع میں تو ان کو اپنے انقلاب کو ان قوتوں کی سازشوں سے بچانا تھا کہ جو انقلابیوں کے جان کے درپے تھے اور جو چاہتے تھے کہ چین میں یہ نیا معاشی نظام جڑ نہ پکڑ سکے چین کی قیادت کا پہلا حدف یہ تھا کہ چین کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے چنانچہ 1949 ء سے لے کر 1970 ء تک کے عرصے تک اس نے دنیا کیلئے چین کے دروازے بند رکھے جب چین اپنے پاؤں ہر کھڑا ہونا شروع ہو گیا تو اس کے بعد دھیرے دھیرے چین کی قیادت نے دنیا کیلئے اپنے دروازے کھولے۔ چینی قیادت یہ بات جان گئی تھی کہ صرف کمیونزم سے ہی وہ اپنی تمام مشکلات کو حل نہیں کر سکتے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر وہ کیپٹلزم کے اندر موجود ان نکات کو بھی اپنی معاشی حکمت عملی کا حصہ بنا لیں کہ جو عوام دوست ہیں چنانچہ اس فارمولے پر عمل درآمد کر کے آج چینی قیادت اپنے ملک کو معاشی عروج تک پہنچا چکی ہے۔ تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ بیس سال کے قلیل عرصے میں کسی بھی ملک کی کسی حکومت نے اپنے ملک میں بسنے والے دس کروڑ انسانوں کوجو غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہوں اس لکیر سے اوپر لے آ یا ہو یہ کریڈٹ صرف اس معاشی نظام کو جاتاہے جس پر چینی حکومت گزشتہ کئی عشروں سے عمل پیراہے۔