نئے زمینی حقائق

1947سے لیکر آج تک بھارت کسی نہ کسی طریقے سے افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی کرتا رہا ہے اور کافی حد تک وہ اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوتا رہا ہے یہ پہلی مرتبہ ہے کہ آجکل افغانستان میں اس کی دال نہیں گل رہی وہ اپنے ہاتھ پیر تو بہت مار رہا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے افغانستان کے ایوان اقتدار تک دوبارہ رسائی حاصل کرسکے اسے اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ افغانستان میں اس نے گزشتہ ستر برسوں میں زندگی کے مختلف شعبوں میں جو سرمایہ کاری کی ہے کہیں اس پر بھی پانی نہ پھر جائے اسے اس بات کی بھی خلش ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک تو اسے کھلی چھٹی حاصل تھی کہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں وہ افغانستان کی سر زمین کو جسطرح چاہتا تھا استعمال کرتا تھا اب وہ شاید ایسا نہ کر سکے کیوں کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت نے ببانگ دہل اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کو کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کشمیریوں کے ساتھ بھارت جو زیادتیاں کر رہا ہے اس کے خلاف افغانستان کی نئی حکومت نے جو حالیہ بیان دیا ہے اس سے بھی بھارت کے پالیسی ساز اداروں کو کاری نفسیاتی ضرب لگی ہے وہ دن گئے کہ جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے آج اس خطے میں بھارت جس قدر ڈپلومیٹک تنہاہی کا شکار ہے شاید اس سے پیشتر کبھی بھی نہ ہواہو گا نریندر مودی نے اپنی انتہاپسند پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کے اندر رہنے والی تمام اقلیتوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے کشمیریوں کی حالت زار دیکھنے کے بعد بھارت میں میں رہنے والے دیگر مذاہب کی اقلیتوں کے اندر بھی خوف کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے مغربی ممالک کے حکام کو افغانستان میں تو ہیومن رائٹس کی فکر دامن گیر رہتی ہے پر دوسری طرف ان کی نظر ایک عرصہ دراز سے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف نہیں جاتی ادھر اب تک مودی کے سنگی امریکہ کے صدر بائیڈن نے بھی کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا کہ جو قابل ستائش ہو کھسیانی بلی کھمبا نوچے افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے معاملے میں انہوں نے جس نا اہلیت کا مظاہرہ کیا ہے اس پر پردہ ڈالنے کیلئے جس بھونڈے انداز میں انہوں نے اپنی ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے اس سے ان کی مزید سبکی ہوئی ہے اور بعض امریکی دانشور ان سے مستعفی ہو جانے کا جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ بے سبب نہیں ہے۔ امریکہ نے چین کو نیچا دکھانے کیلئے اس خطے میں بھارت کا انتخاب تو کر لیا ہے پر بہت جلد اسے اپنی اس غلطی کا احساس ہو جائے گا کہ اس کا انتخاب کتنا غلط تھا چین آج کل انیسویں صدی والا وہ چین نہیں رہا کہ جسے فرنگیوں نے افیون کی لت پر ڈال دیا تھا ماو زے تنگ چو این لائی اور ان کے شاگرد کامریڈوں نے اپنی محنت شاقہ اور دور اندیشی سے چین کو اقتصادی عسکری تعلیمی اور سائنسی میدان میں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اب وہ بہت مضبوط نظر آ رہا ہے روس کے ساتھ اتحاد نے اسے مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا ہے ماضی میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان جو سرحدی جھڑپیں وقتا فوقتا ہوتی رہی ہیں ان میں بھارت نے ہمیشہ منہ کی کھائی ہے اور ان سے ثابت ہوگیا ہے کہ بھارت کی افواج کے تلوں میں اتنا تیل نہیں ہے کہ وہ جنگ کے میدان میں چینی افواج کا مقابلہ کرسکیں۔