امریکہ کا زوال شروع؟

لگ یہ رہا ہے کہ افغانستان کے نئے حکمران اپنے ہاں ایران سے ملتا جلتا ہوا کوئی نظام حکومت قائم کرنے کا سوچ رہے ہیں یہ ان کی صوابدید ہے ان کا اختیار ہے کہ وہ جس نظام کو بھی اپنے ملک کے لیے بہتر تصور کریں اسے نافذ کریں پر ایسا کرنے سے پہلے اچھی بات یہ ہو گی کہ وہ تمام مکتبہ ہائے فکر کے دانشوروں سے اس مسئلے پر تفصیلی گفت و شنید ضرور کریں تاکہ بعد میں ملک کے اندر کسی بات پر کوئی خلفشار پیدا نہ ہو کیونکہ افغانستان میں مختلف قومیتوں کے لوگ بستے ہیں۔ برطانوی وزیر دفاع نے امریکہ کو سپرپاور ماننے سے جو انکار کیا ہے وہ بڑا معنی خیز ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی قریب میں دنیا کے فوجی ماہرین امریکہ کو ایک سپر پاور کا درجہ دیتے تھے بلکہ بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جب امریکہ کی سازشوں کی وجہ سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو مغربی میڈیا میں اس بات پر کافی غلغلہ اٹھا کہ اب جب کے سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے دنیا میں امریکہ کے ہم پلہ کوئی ایسا ملک نہیں کہ جو عسکری یا معاشی لحاظ سے اس کا مقابلہ کر سکے اس لئے دنیا یونی پولر unipolar ہو چکی ہے جس میں امریکہ ہی دنیا کی واحد سپر پاور ہے امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور قرار دینے والے سیاسی مبصرین اور میڈیا کو یہ پتہ نہ تھا کہ چین عسکری اور معاشی لحاظ سے دنیا کی ایک ایسی سیاسی قوت بن چکا ہے کہ سردست اس کا دنیا میں کوئی توڑ نظر نہیں آ رہا اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ جس تیزی کے ساتھ معاشی اور عسکری لحاظ سے آگے بڑھا ہے اسی تیزی کے ساتھ وہ گرا بھی ہے۔انیس سو ساٹھ کے اواخر میں پہلے تو ویت نام کے بہادر عوام نے اس کے دانت کھٹے کئے اور اسے پسپا ہو کر رسوائی کے عالم میں وہاں سے اپنی فوجیں نکالنا پڑیں اور امسال تاریخ نے اپنے آپ کو اس وقت پھر دہرایا جب اسے آفغانستان سے خجل خوار ہو کر اپنی فوج نکالنا پڑی۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک اس کرہ ارض پر درجنوں تہذیبوں اور سلطنتوں نے جنم لیا وہ وقت کے ساتھ ہاتھ پھلی پھولیں اور پھر ہر کمالے را زوالے کے مصداق ان پر زوال آیا پر آپ اس حقیقت کو نہ بھولئے کہ ان کا زوال اس وقت آیا کہ جب انہوں نے اقتدار میں اچھا خاصا وقت گزار لیا تھا اور ان کا اقتدار میں دورانیہ اگر ایک ہزار سال تک نہ بھی تھا تو کم از کم پانچ سو سال کے قریب قریب ضرور تھا امریکہ کی سلطنت کو تو ابھی اقتدار میں آئے بقول کسے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے ان کے اقتدار کا دورانیہ ابھی ڈھائی سو سال بھی پورا نہیں ہوا اور اس میں شکست و ریخت کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں ایک مشہور مقولہ ہے کہ انسان کو چادر کا سائز دیکھ کر اپنے پاں پھیلانے چاہئیں۔تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں اور سلطنتیں اس وقت تباہ ہونا شروع ہوگئیں جب وہ خبط عظمت میں مبتلا ہوگئیں اور انہوں نے اپنی استعداد اور طاقت سے زیادہ فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور اپنے وسائل اور قوت سے زیادہ ممالک کو اپنی سلطنت کا حصہ بنایا بعد میں وہ ان کو صحیح طور پر سنبھال نہ سکیں اور اس طرح وہ زوال پذیرہونا شروع ہو گئیں۔ ماضی قریب میں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ اسی قسم کا المیہ ہوا اس کے بعد زار روس سے بھی اسی قسم کی غلطیاں سرزد ہوئیں اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین نے بھی اپنی مالی اور عسکری استطاعت سے زیادہ چھوٹے چھوٹے ممالک کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ انجام کار ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اب یہ لگ رہا ہے کہ امریکہ کا نمبر آ چکا ہے۔