ہندوستان ذات پات کا شکار ملک ہے تین ہزار سال ہو گئے یہ ملک پانچ قسم کی ذاتوں میں بٹا ہوا ہے برہمن کو سب سے اونچی ذات سمجھا جاتا ہے اور دماغی کاموں کیلئے موزوں‘ شتری ذات کے افراد سے فوج کا کام لیا جاتا ہے‘ ویش سے کاروباری کام اور شودروں سے صفائی ستھرائی کا کام۔ہندوستان میں اچھوت ذات سے تعلق رکھنے والے بھی موجودہیں جن کو دلت کہا جاتا ہے اس ذات کے لوگوں سے تو دوسری ذاتوں کے لوگ ہاتھ تک ملانا گوارا نہیں کرتے کہ مبادا وہ پلیدہو جائیں۔ ہندوستان میں بھی دوسرے ممالک کی طرح ہر دس سال بعد مردم شماری کی جاتی ہے انیس سو اکتیس تک جو مردم شماری ہوا کرتی اس میں ہندوستانیوں کی ذات پات کا بھی اندراج ہوا کرتا تھا۔ یہ عمل 1941 سے منقطع کر دیا گیا آج کل چونکہ پھر مرد م شماری ہونے والی ہے تو ایک مرتبہ پھر بھارت کی تمام اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اب کی دفعہ جب ملک میں مردم شماری ہو تو بھارت میں رہنے والے افراد کی ذات کے بارے میں بھی مردم شماری کے فارم میں اندراج کرنا ضروری قرار دیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ ہندوستان میں کس کس ذات کے کتنے کتنے لوگ آباد ہیں۔ حکومت وقت یہ مطالبہ ماننے سے گریز کر رہی ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس سے معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ان حقائق کے پیش نظر حیرت ہوتی ہے جب بھارتی ہندو لیڈر دنیا میں انسانی حقوق کا پر چار کرتے ہیں اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے انسانی حقوق تو وہ پامال کر رہے ہیں پر دیگر ممالک کے لوگوں کے حقوق کی فکر ان کو پڑی ہوئی ہے۔ ایک مستند سروے کے مطابق بھارت میں اس ذات پات کے کلیے کی وجہ سے 52 فیصد لوگوں کو برہمن نچلی ذاتوں کے زمرے میں ڈالتے ہیں یہ اچھی خاصی آبادی ہے اور یہ اگر اس ظالمانہ تفریق کے خلاف یک زبان ہو کر اٹھ کھڑی ہو تو بھارت کی چولیں ہل سکتی ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے جن علاقوں یا ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں ان میں ان ذاتوں کے لوگوں کی اکثریت بستی ہے کہ جن کا ہندو دھرم میں نچلا مقام ہے اور جن کو وہ دوسرے یا تیسرے درجے کا شہری تصور کرتے ہیں۔ برہمن لوگ ان ہندؤں کو ہندو دھرم سے ہی باہر نکال دیتے ہیں کہ جو نچلی ذاتوں کے افراد سے ازدواجی تعلقات بنانے کی کوشش کریں وطن عزیز بلکہ دنیا میں جہاں جہاں انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے موجود ہیں ان کو بھارت میں ذات پات کے نظام کے خلاف یک زبان ہو کر آواز اٹھانا از حد ضروری ہے۔ اب چونکہ بھارت کی بات چل نکلی ہے تو کیوں نہ اس سے متعلق ہی چند دوسرے اہم امورپر دو چار باتیں ہو جا ئیں کہ جن کا وطن عزیز کی سلامتی کے ساتھ گہرا تعلق ہے روز اوّل سے ہی یعنی 14 اگست 1947 سے ہی بھارت کی یہ کاوش رہی ہے کہ اس ملک کی بیخوں میں پانی دیا جائے اپنی سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اس نے ہمارے برادر اسلامی ملک افغانستان کی سر زمین کا بھرپور استعمال کیا اور وہاں سے سابقہ فاٹا اور وطن عزیز کے دوسرے علاقوں میں تخریبی کاروائیاں کروائیں۔ بھارت کے افغانستان میں ڈیرے ڈالنے سے ہی اس ملک میں امن کی تمام کوششیں ماضی میں ناکامی سے دوچار ہوتی گئیں، سر دست بادی النظر میں لگ تو یہ رہا ہے کہ افغانستان بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے پر بھارت باز آنے والا نہیں وہ لاکھ جتن کرے گا کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ نئی افغان حکومت کو بھی اپنے جام میں اُتار لے۔