کورونا وباء کے مقابلے کی کوششوں میں ہم نے محض تعلیمی بندش پر ہی اکتفا کیا احتیاطی تدابیر کی پاسداری ایوان اقتدار سے لیکر اقتدار کیلئے بے تاب سیاسی جماعتوں کے اجتماعات تک کہیں بھی نظر نہیں آرہی سوال یہ ہے کہ کیا تعلیمی اداروں کو تالے لگانے اور طلباء کو بغیر امتحان یا رعایتی مارکس کے طریق پر پاس کرنے سے تعلیمی بچاؤ ممکن ہے؟ کوئی مانے یا نہ مانے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے طلباء کا ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا جبکہ دوسرا ضائع ہونے کے دھانے پر کھڑا ہے عالمی ادارہ صحت سے لیکر ہمارے این سی او سی تک تمام اس بات پر متفق ہیں کہ احتیاطی تدابیر کے سوا کورونا سے بچاؤ کا اور کوئی چارہ نہیں اب کہنے کی بات یہ ہے کہ یہ احتیاطی تدابیر آخر ہیں کیا؟ میری دانست میں تو یہ ایک محفوظ طرز زندگی کا نام ہے یعنی سماجی فاصلہ‘ اسی طرح ماسک اور وہ بھی معیاری کا استعمال‘ سینی ٹائزر‘ صفائی یعنی ہاتھوں کا بار بار دھونا اور ہاتھ نہ ملانا‘ بغل گیر نہ ہونا اور سینی ٹائزر واک تھرو گیٹ سے اگر گزرنا ممکن ہو تو زیادہ بہتر ہوگا مگر یہ سب کچھ کہاں ہو رہا ہے؟ اگر نہیں ہو رہا تو کیوں؟ جہاں تک تعلیمی اداروں کا تعلق ہے تو مذکورہ تمام تر احتیاطی تدابیر کی پاسداری بڑی آسانی ممکن ہے مگر پیسہ چاہئے مگر پیسہ ہمارے ہاں تعلیم یعنی کورونا سے تعلیمی بچاؤ کیلئے کم از کم نہیں ہے ہمارے ہاں محض اس پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ این سی او سی کی ہدایات بلکہ احکامات کے تحت ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے تعلیمی اداروں کو تالے لگاتے ہیں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ کلاسز کو منقسم کرنے کے ساتھ تمام تر احتیاطی تدابیر پر ہونیوالے اخراجات کیلئے ایک تعلیمی کورونا ریلیف فنڈ قائم ہو اور ایک معقول ریلیف پیکیج جاری کیا جائے؟ کیوں نہیں‘ بالکل ہو سکتا ہے مگر تب کہ اقتدار میں بیٹھے اور اقتدار کیلئے بے تاب دونوں سیاسی قوتیں ملک کے کاروباری طبقے‘ صاحب ثروت شخصیات اور عالمی امدادی اداروں کی مدد سے کوئی فلاحی اور نجاتی قدم اٹھانے کا احساس کیا جائے۔ تعلیمی بچاؤ اور احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد محض خالی ہاتھ تعلیمی اداروں پر چھوڑنا تو تعلیم کیساتھ ایک مذاق کھلواڑ سے زیادہ کچھ نہیں آئے روز تعلیمی بندش‘ احتیاطی تدابیر کے پرچار اور طلباء کو بغیر امتحان کے آگے پہچانے کا نتیجہ جلد یا قدرے بدیر اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ ہم نے تعلیمی بساط لپیٹنے کا ازخود اہتمام کیا ہے لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ تعلیم بچاؤ کیلئے بہت کچھ کیا جائے ورنہ معیشت اور سیاست کی طرح تعلیم کی بربادی میں بھی کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا‘ برسراقتدار حلقے کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ دنیا کے دوسرے ممالک جہاں پر کورونا کے اثرات پاکستان سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہوئے ہیں آیا وہاں کہ بھی تعلیم اسی طرح برباد ہوئی ہے یا انہوں نے تعلیمی بچاؤ کی ذمہ داری من حیث القوم پوری کردی ہے؟۔
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے