سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی انتقال کرگئے 

پشاور:سینئر صحافی،ممتازتجزیہ نگار اور افغان امورکے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی طویل علالت کے بعد گذشتہ روزانتقال کرگئے ان کی عمر 67برس تھی۔

 مرحوم کل ان کے آبائی گاؤں انزرگئی مردان میں سپردخا ک کیاجائے گا۔

رحیم اللہ یوسفزئی دس ستمبر 1954کوپیداہوئے  ان کے والد ان کو فوجی افسر بنانا چاہتے تھے اور وہ ملٹری کالج کے ہونہار طلبہ میں سے تھے مگر پھر آنکھوں کی بینائی کم ہو گئی اور یوں وہ فوجی افسر بنتے بنتے رہ گئے۔

  1972-73میں شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہوئے آغاز انگریز ی اخبار دی سن سے کیا اور پھر اس کے بعد انہوں نے بھرپور محنت کی اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔

  قیادت کا مادہ اور جذبہ بھی موجود تھا چنانچہ اخبار کے کارکنوں کی تنظیم قائم کرکے اس کے سیکرٹری اور بعد ازاں صدر بن گئے۔

 وہ کراچی و لاہور کی یونینز کی فیڈریشن کے صدر بھی منتخب ہوئے  مشاہد حسین سید کے توسط سے پھر انگریزی اخبار دی مسلم کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور 1985 ء میں پشاور آکر اس کے بیوروچیف بن گئے‘ پھر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے مشورے پر انہوں نے کچھ عرصہ دی اینڈیپینڈنٹ کے ساتھ بھی کام کیا۔

 جب فروری 1991ء میں دی نیوز کا اجراء ہوا تو اس کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور تادم مرگ اسی کے ساتھ وابستہ رہے۔

 نومبر 1985 ء میں بی بی سی کے ساتھ وابستہ ہوئے‘ بے پناہ محنت اور جہد مسلسل کی وجہ سے مستند حوالہ افغان امور کے ماہر بن گئے۔

 1978 ء سے افغان تنازعہ پر رپورٹنگ کرتے آرہے تھے“ 1998 ء میں انہوں نے دو مرتبہ اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا‘ وہ پہلے صحافی تھے جنہوں نے افغانستان کے طالبان رہنما ملا محمد عمر کا بھی انٹرویو کیا۔

 اپنے بے پناہ تجربے اور مشاہدے کی بناء پر ملک کے معروف سیاسی و دفاعی تجزیہ کار بن کرسامنے آئے  اس لئے تو ملک کے ہر حصے میں افسران کی ٹریننگ کے دوران لیکچر کیلئے بلائے جاتے رہے۔

 خیبریونین آف جرنلسٹس کو ازسرنو متحرک کیا اور اس کے صدر بن گئے‘ اسی طرح سیفما کے اس علاقے کے صدر بھی رہے۔

 1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا اور خیبرپختونخوا حکومت کیلئے وزراء کے نام فائنل ہونے لگے تو ان کو بھی صوبائی کابینہ میں شامل کرنے کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے یہ کہہ کر شکریہ کے ساتھ مسترد کر دی کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ امور کو متاثر نہیں کر سکتے۔

 اس طرح ماضی میں کئی سیاسی جماعتوں نے ان کو اپنے اپنے ٹکٹ پر انتخابات لڑانے کی پیشکش کی مگر انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ اس سے بھی دامن چھڑائے رکھا۔

 ان کی شاندار خدمات کی بنا پر حکومت نے ان کو 2004 ء میں تمغہ امتیاز اور 2009 ء میں ستارہ امتیاز کے اعزازات سے نوازا بھرپورصحافتی اورسماجی زندگی گذارنے کے بعدوہ گذشتہ روز خالق حقیقی سے جاملے۔

مرحوم کو سرطان کاعارضہ لاحق تھا اورپندرہ مہینے بڑی بہادری کے ساتھ اس موذی مرض کامقابلہ کیامرحوم کی نمازجنازہ آج گیارہ بجے ان کے آبائی گاؤ ں انزرگئی نزد بابوزئی انٹر چینج سوات موٹروے میں اداکی جائے گی