موجودہ افغانستان اور بدلتے حالات

نائن الیون کے واقعے یا حملے کو20برس مکمل ہوگئے ہیں دنیا کی تاریخ میں یہ بہت کی جنگوں اور تبدیلیوں کا باعث بنا تاہم افغانستان اورپاکستان اس واقعے سے گزشتہ20برسوں کے دوران مسلسل متاثر ہوتے گئے اور امریکی انخلاء نے خطے میں بعض نئے مگر سنگین نوعیت کے مسائل‘ خدشات اور چیلنجز کو جنم دے رکھا ہے نائن الیون کے واقعے میں تقریباً 3800 افراد کی ہلاکتیں ہوئیں تاہم گزشتہ20برسوں کے دوران امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں نے اس واقعے کی آڑ میں انسداد دہشت گردی کے نام پر تقریباً تین لاکھ افراد کو ہلاک کردیا اور تقریباً نصف درجن ممالک میں اب بھی جنگوں‘ بدامنی اور شورش کی صورتحال ہے اس واقعے میں کوئی افغان یا پاکستانی براہ راست ملوث نہیں تھا حملہ آور سب کے سب دوسرے ممالک کے تھے اور القاعدہ کو پاکستان یا افغانستان میں کوئی عوامی حمایت بھی حاصل نہیں تھی اسکے باوجود حملے کے بعد صدر بش جونیئر اور ان کی ٹیم نے اسے صلیبی جنگوں کا تسلسل قرار دیکر نہ صرف افغانستان پر اتحادیوں سمیت حملہ کیا بلکہ تہذیبوں کے تصادم کی مغربی تھیوری کے علاوہ نیو ورلڈ آرڈر جیسے فارمولے کو آزمانے کی کوشش بھی کی افغانستان میں گزشتہ 20برسوں کے دوران جاری جنگ  سے تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک کئے گئے جن میں 15ہزار غیر ملکی بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں تقریباً90 ہزار افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں اہم شخصیات کے علاوہ فورسز کے12000 اہلکار اور افسران بھی شامل ہیں تاہم المیہ یہ ہے کہ20 برسوں کی سرمایہ کاری‘ مسلسل کاروائیوں اور دیگر اقدامات کے باوجود افغانستان میں نہ تو امن قائم کیا جا سکا اور نہ ہی  جن مقاصد کی حصول کے دعوے کئے گئے تھے ان کو پورا کیا جاسکا جس کا منطقی انجام دنیا نے15اگست کو افغان طالبان کے کابل میں کسی مزاحمت کے بغیر داخلے اور31اگست کو امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے مکمل فوجی انخلاء کی صورت میں دیکھا۔ صدر جوبائیڈن نے کھلے عام اپنی شکست کااعتراف کرکے موقف اپنایا کہ ان کی سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ہے اور یہ کہ وہ امریکہ کی تیسری نسل کو اس جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے دوسری طرف برطانیہ نے اعلیٰ سطح پر اپنے اتحادی امریکہ کی سپرپاور کی سٹیٹس کو چیلنج کرکے یہ تک کہا کہ امریکہ اب سپرپاور نہیں رہا افغان طالبان 20 سالہ مزاحمت کے بعد پھر سے افغانستان کے حکمران بن بیٹھے جبکہ عالمی برادری کے حمایت یافتہ افغان حکمران اور ادارے میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو تقریباً3 سے5 ٹریلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا یوں ماہرین نے اگست2021ء کو امریکہ کیلئے ویت نام سے بھی بڑی شکست کا مہینہ قرار دیکر افغانستان کو سلطنتوں کی قبرستان کا خطاب دیکر اس انخلاء کو مکمل شکست سے تعبیر کرکے اسکو امریکہ کے علاوہ نیٹو کی پہلی شرمناک ناکامی کا نام دے دیا کیونکہ ویت نام کی جنگ میں صرف امریکہ شکست کھاگیا تھا اور یہاں اسکے50 کے لگ بھگ اتحادی بھی ناکامی سے دوچار ہوگئے تھے یہ ناکامی صرف فوجی شکست تک محدود نہیں رہی بلکہ امریکہ نے افغانستان میں جن لوگوں اور اداروں پر کھربوں کی سرمایہ کاری کی تھی وہ بھی نظام کے گرنے سے ضائع ہوگئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتحادیوں کے علاوہ امریکیوں کی بڑی تعداد بھی 20 سالہ پالیسی پر سوالات اٹھانے لگے۔دوسری طرف جوبائیڈن نے روس اور چین کو مستقبل کے دشمن قرار دینے کی پالیسی اپنا کر یہ اشارہ  دینا شروع کیا کہ کھیل ابھی جاری ہے اور بہت کچھ ہونا باقی ہے پاکستان پر بوجوہ یہ20سال بہت بھاری گزرے اس کو تقریباً چھ سو ڈرون حملوں اور خودکش دھماکوں کا سامنا کرنا پڑا ایک لاکھ کے قریب ہلاکتیں ہوئیں اور اربوں کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا تو دوسری طرف اسے عالمی دباؤ اور پابندیوں سمیت دھمکیاں بھی ملتی رہیں اس کو تنہا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تاہم سال2018 کے بعد جب مذاکرات کی ضرورت پیش آئی تو عالمی رویہ بدلنا شروع ہوگیا اورپاکستان کی اہمیت میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ جنوری2020ء کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کی صورت میں جو پیش رفت ہوئی پاکستان نے اس میں بھی بنیادی کردار ادا کیا امریکہ اسکے کردار کو مسلسل شک کی نظر سے دیکھتا رہا مگر طالبان قبضے اور دیگر غیر متوقع حالات نے اسے بوجوہ پھر سے پاکستان کا محتاج بنایا دوسری طرف چین‘ روس‘ ایران اور بعض یورپی ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور اسکے علاقائی اور عالمی کردار کو تسلیم کرکے نئی پیش رفت کو پاکستان کا بھی کریڈٹ قرار دیا گیا جس پر بھارت میں بہت واویلا مچ گیا اور ماہرین اپنے حکمرانوں پر چڑھ دوڑے گزشتہ20 برسوں کے دوران پاکستان اور افغانستان کے جو علاقے دو طرفہ حملوں‘ شورش اور بدامنی سے بری طرح متاثر ہوئے بدقسمتی سے وہ پشتون علاقے تھے کیونکہ افغانستان کے ساتھ ان علاقوں کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں شدت پسند اس کا فائدہ اٹھاتے رہے تاہم نیشنل ایکشن پلان‘ بارڈر فسنگ اور فاٹا انضمام کے ذریعے عسکری معاشی اور انتظامی اقدامات اور اصلاحات پر توجہ دی گئی جسکے باعث بہت بہتری واقع ہوئی بعض سازشوں اور خدشات کے باوجود یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔