نیشنل ایکشن پلان اور فاٹا مرجر پر مباحثوں کا اہتمام

پشاور میں ہفتہ رفتہ کے دوران نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد‘ طریقہ کار اور ضم شدہ اضلاع کی سیاسی‘ انتظامی اور صحافتی ایشوز پر دو مختلف ایونٹس کا انعقاد کیا گیا دونوں ایونٹس کے دوران صوبے کے سیاسی قائدین‘ ماہرین اور صحافیوں نے متعلقہ موضوعات کی مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیکر اپنے خدشات اور بدلتے حالات کے تناظر میں اپنی تجاویز پیش کیں اور اس بات پر زور دیا کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے جاری پالیسیوں کو نتیجہ خیز اور سودمند بنایا جائے‘ نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں منعقدہ نمائندہ تقریب سے جن اہم افراد نے خطاب کیا ان میں نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی‘ اے این پی کی ترجمان ثمر بلور‘ جے یو آئی ترجمان جلیل جان‘ وزیر اعلیٰ کے مشیر عبدالکریم خان‘ ایم پی اے شگفتہ ملک‘ تجزیہ کار سبوخ سید‘ ہمایون خان‘ صفدر سیال اور پشاور کے صحافی شامل تھے شرکاء کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں جہاں کراچی کا کامیاب آپریشن کیا گیا بعض شورش زدہ علاقوں میں امن کا قیام ممکن بنایا گیا وہاں سابقہ فاٹا کا انضمام  اور وہاں عوام کو سیاسی اور ریاستی امور اور فیصلہ سازی تک رسائی کے اقدامات کو بھی ممکن بنایا گیا‘ شرکاء میں سے اکثریت نے ماضی کے مقابلے میں قومی سلامتی اور امن وامان سے متعلق مجموعی صورتحال کو کافی بہتر قرار دیکر متعدد ریاستی اقدامات اور فیصلوں کو سراہتے ہوئے مزید اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ریاستی اور سیاسی اداروں‘ قوتوں کے سامنے اپنی سفارشات پیش کیں یاد رہے کہ اس ایونٹ سے تین روز قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونیوالے قومی سلامتی سے متعلق ایک اہم اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنوجائزہ لینے کا اعلیٰ سطحی اعلان سامنے آیا تھا مذکورہ اجلاس میں بھی کہا گیا تھا کہ بدلتے حالات اور بعض چیلنجز کے تناظر میں نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کی جائے گی اور درکار اقدامات کئے جائینگے دوسری ایونٹ کے دوران سینئر صحافیوں‘ ماہرین اور سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں‘ نمائندگان نے دو روز تک فاٹا مرجر کے بعد کے حالات‘ چیلنجز‘ انتظامی مشکلات اور میڈیا کے کردار پر کھل کر تبادلہ خیال کیا اور اپنے مشاہدات اور تجاویز پیش کیں اس موقع پر شرکاء کا مشترکہ موقف رہا کہ قبائلی علاقوں کے امن‘ ترقی اور استحکام پر غیر معمولی توجہ دی جائے تاکہ اس خطے کے ساتھ ماضی میں ہونیوالی زیادتیوں کا ازالہ ہو سکے اور اس امر کو بھی یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان کی حالیہ تبدیلیوں کے بعض منفی اثرات سے خیبرپختونخوا بالخصوص قبائلی علاقوں کو محفوظ بنایا جاسکے‘ دونوں ایونٹس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب افغانستان ایک بار پھر ایک اور تبدیلی سے گزر رہا ہے اور ایک بار پھر اس حقیقی خطرے یا خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ وہاں کے حالات دونوں ممکنہ صورتوں میں پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا پر اثرانداز ہونگے متعلقہ حکومتی اداروں کو چاہئے کہ وہ دونوں ایونٹس کی تجاویز‘ مشوروں اور سفارشات کو سنجیدہ لیکر انہیں اپنی پالیسی میکنگ کا حصہ بنائیں تاکہ قومی سلامتی کو مزید مستحکم اور محفوظ بنایا جا سکے۔