کورونا وباء آتی ہے تباہی مچا کر چلی جاتی ہے اور تازہ دم ہو کر دوبارہ آجاتی ہے یوں چار باریاں پوری کرلیں ہر بار سب سے زیادہ تعلیم کیساتھ دشمنی پر اتر آتی ہے اور یوں یہ دشمنی پھر دوسرے کئی مسائل کوبھی جنم دیتی ہے۔ مثال کے طور پر سندھ میں آئے روز پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا احتجاج جس میں اب طلباء اور والدین بھی شامل ہوگئے ہیں احتجاجی فریق حکومت پر تعلیم دشمنی کا الزام بھی عائد کر رہا ہے اب کہنے کی بات یہ ہے کہ تعلیم دشمنی کا الزام اگربجا نہ بھی ہو تب بھی یہ سوال حل طلب ہے کہ اپنے آپ کو اور تعلیم کو بچانا محض طلباء والدین اور تعلیمی ادارے چلانے والوں کا فرض ہے؟ اہل علم و دانش اور تعلیم دوست حلقوں کا یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ حکومت نے تعلیم بچانے کیلئے کیا کیا اور اب کیا کر رہی ہے؟ اب رہی ایس او پیز یا احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کی بات تو اس امر پہ تو اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت اور ہمارے این سی او سی سے لیکر حکومت سیاسی قیادت اور معالجین تک سب کے سب متفق ہیں کہ احتیاطی تدابیر کی پاسداری کورونا سے بچاؤ کا واحد راستہ ہے تاہم آج تک یہ کسی نے محسوس نہیں کیا کہ احتیاطی تدابیر ایک عمل کا نام ہے جس کیلئے پیسہ چاہئے اب جبکہ بات پیسے کی آتی ہے تو سمجھ لیں کہ تعلیم بے چاری خوار ہی رہے گی کیونکہ ہمارے ہاں با قی شعبوں کیلئے پیسوں کی کمی نہیں مگر تعلیم بے چاری کی بدنصیبی کا کیا کہئے؟ کورونا کی چوتھی لہر میں اگر تعلیمی بساط مکمل طور پرلپیٹنے میں کوئی کسر باقی ہے تو عین ممکن ہے کہ پانچویں لہر میں تیاپانچہ ہو جائے گا کیونکہ کورونا نے تو ایک بار نہیں بلکہ چار مرتبہ اس بات کی نفی کر دی ہے کہ یہ کوئی معمولی سا زکام ہے بلکہ اس بات کو سچ ثابت کردیا ہے کہ وباء جلد واپس جانے والی نہیں لہٰذا اب ہمیں اسکے ساتھ رہ کر زندگی گزارنے اور کام کاج جاری رکھنے کی عادت ڈالنی ہوگی اب تعلیمی اداروں میں اس کے ساتھ رہنا تدریسی عمل کو جاری رکھنا اور احتیاطی تدابیر کی بدولت اپنے آپ کو بچانا تو یقینا پیسے اور خرچے کا کام ہے مثال کے طور پر جس کلاس میں چالیس طلباء پڑھتے ہیں تو سماجی فاصلے کیلئے کلاس کو بیس بیس طلباء کی دو کلاسز میں تقسیم کرنا ناگزیر ہوگا اس طرح سینی ٹائزر واک تھرو گیٹ یا کم از کم معیاری سینی ٹائزر کا انتظام بھی پیسے کے بغیر ممکن نہیں ہوگا کلاس روم میں روزانہ جراثیم کش سپرے معیاری کلینیکل فیس ماسک صفائی ستھرائی مطلب یہ تمام تر وہ ضروریات اور لوازمات ہیں جو پیسے کے بغیر پورے نہیں ہوتے لہٰذا لازماً ایک معقول ریلیف پیکیج کی ضرورت ہوگی جس کی راہ تعلیم گزشتہ ڈیڑھ سال سے تک رہی ہے جہاں تک اپنی مدد آپ کی بات ہے تو گزشتہ کچھ عرصہ سے تعلیمی ادارے اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ کچھ کرسکیں بلکہ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی حالت تو اس حد تک ابتر ہو چکی ہے کہ بسااوقات تنخواہیں بھی نہیں دے سکتے اور ملازمین سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں یہ امر طے ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کی نصیحتوں اور انتبا ہی بیانات سے تعلیمی بچاؤ ممکن نہیں ہوگا بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ترقیاتی اور پروٹوکولی اخراجات کو حد درجہ کم کرکے تعلیمی بچاؤ کا راستہ نکالنا ہوگا کیونکہ چوتھی لہر میں چوتھی بار تعلیمی بندش کا آغاز بھی ہوگیا ہے دیکھتے ہیں کہ ہماری تعلیم کہاں جاکر کھڑی ہوگی؟
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے