میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور میں ڈینگی وائرس نے پھر انٹری دے دی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پشاور میں 24 گھنٹے کے دوران 110 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پشاور کے علاوہ خیبر پختون خوا کے 11 اضلاع میں ڈینگی وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل لاہور سمیت پنجاب بھر میں کورونا کے ساتھ ڈینگی بخار کے بڑھتے کیسز رپورٹ کیے جاچکے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی بخارایک عام سی بیماری ہے، لیکن اگر بروقت اس کا تدارک نہ کیا جائے اور احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو یہ ایک وبا کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
یہ وہ بیماری ہے جو یورپ کے علاوہ تقریباً ساری دنیا میں ہوتی رہتی ہے اور ماضی میں ہمارے ہمسایہ ملک بھارت اور سری لنکا میں بھی کافی لوگوں کی جان لے چکی ہے، اس بیماری کا اثر بالغوں کی نسبت بچوں میں زیادہ شدید ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا میں تقریباً دو کروڑ کے لگ بھگ لوگ ڈینگی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس مرض کی شرح اموات پانچ فیصد سے لے کر تیس فیصد تک ہے۔ یہ بیماری چار مختلف اقسام کے ڈینگی وائرس کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ جسم اور جوڑوں کے شدید درد کی وجہ سے اس بیماری کو ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے۔ ملیریا کی طرح ڈینگی بخار بھی مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے، لیکن اس میں اینافلیز کی بجائے ایڈیز مچھر شامل ہوتے ہیں جو کہ عام مچھروں کی نسبت زیادہ خطرناک اور بہادر ہوتے ہیں اور دن کے اوقات میں بھی کاٹ سکتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی بھی جگہ پانی جمع نہ ہونے دیا جائے۔ عام لوگوں کی توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے لیکن اس مرض کو پھیلانے میں اہم ترین کردار صاف پانی ادا کرتا ہے اور مچھر دانیوں اور اسپرے کا استعمال لازمی ہے کیوں کہ ایک مرتبہ یہ مرض ہوجائے تو اس وائرس کو جسم سے ختم ہونے میں دو سے تین ہفتوں تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ بارش کے بعد اکثر گھروں کے آس پاس یا لان ، صحن وغیرہ میں پانی جمع ہو تو اسے فوراً نکال کر وہاں اسپرے کرنے سے ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے۔ صفائی کو قائم رکھ کر اگر مچھروں کی افزائش کا ماحول ہی ختم کردیا جائے تو اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے اور ترقی یافتہ بہت سے ممالک نے اس طرح اس مرض پر قابو پایا ہے۔