یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ ماضی کے مقابلے میں خیبرپختونخوا کے عوام اپنے بچوں اور بچیوں کو جاری معاشی چیلنجز کے باوجود سکولز‘ کالجز اور یونیورسٹیوں میں اسکے باوجود بڑے اہتمام کے ساتھ بھیج رہے ہیں کہ پاکستان میں سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی قابل ستائش نہیں ہے اور نجی ادارے اتنی زیادہ فیسیں لے رہے ہیں کہ عام آدمی تو کیا اب مڈل کلاس کیلئے بھی ان فیسوں کو برداشت کرنا ایک مشکل کام رہ گیا ہے کورونا بحران نے دوسرے شعبوں کی طرح حصول علم کو بھی ایک بڑا چیلنج بنا دیا ہے اور سرکار کے علاوہ تعلیمی اداروں کو بھی کوئی واضح اور نتیجہ خیز لائحہ عمل سمجھ میں نہیں آرہا اسی وجہ سے سٹوڈنٹ اور انکے والدین کافی ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں حال ہی میں پشاور سمیت صوبوں کے مختلف تعلیمی بورڈز نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج کا وفاقی حکومت کے ایک مبہم فارمولے کے تحت اعلانات کئے تو جہاں ہزاروں سٹوڈنٹس نے اپنے پاس ہونے اور زیادہ نمبرز لینے پر اظہار مسرت کیا وہاں پشاور اور مردان کے بورڈز نے ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کو اتنے زیادہ نمبرز دیئے کہ جن کو عالمی ریکارڈ قرار دیا گیا تین امیدواروں نے کل1100 میں سے1100 ہی لئے اس کا مطلب یہ لیاگیا کہ جن سٹوڈنٹس نے یہ نمبرز لئے ان سے پیپرز میں کوئی ایک عدد غلطی بھی نہیں ہوئی جو کہ ناقابل یقین بات ہے۔ ان نتائج نے جہاں سٹوڈنٹس کو حیران کردیا وہاں بورڈز کے طریقہ کار اور طے شدہ حکومتی فارمولے کے علاوہ بعض تعلیمی اداروں کی ساکھ کو بہتر بنانے کی بجائے برباد کرکے رکھ دیا کیونکہ بعض نتائج کو عقل اور سسٹم دونوں تسلیم نہیں کرتے میڈیا پر ان نتائج کا مذاق اڑایا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے مجبور ہو کر ان نتائج کی تحقیقات کیلئے ایک آٹھ رکنی انکوائری کمیٹی کا اعلان کر دیا کمیٹی 100فیصد نمبر لینے والے سٹوڈنٹس کے پرچوں کی پڑتال کے علاوہ کامیاب امیدواروں کے سابق نتائج اور ان کے اکیڈمک ریکارڈ کے جائزے سمیت پرچوں کی چیکنگ کے نظام کا بھی جائزہ لے گی پاکستان میں اس قسم کی کمیٹیوں یا انکی تحقیقات کا ٹریک ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں تاہم حکومت کو اب کے بار اسلئے بہت سنجیدگی دکھانی ہوگی کہ یہ ہماری نئی نسل کے علاوہ ہمارے نظام تعلیم‘ نظام امتحانات اور اس میں درکار اصلاحات سے وابستہ وہ معاملہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ پشاور میں متعدد ایسے سکولز اور کالجز موجود ہیں جو کہ سستی اور کوالٹی تعلیم دینے کے علاوہ تربیت دینے کا فریضہ بھی احسن طریقے سے سرانجام دیتے ہیں مگر انکے سٹوڈنٹس کو حوصلہ شکنی کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر ہوگئی ہے اور انکے اساتذہ کی ٹریننگ اور تجربے کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے تاہم فنڈز کی کمی کے علاوہ یہ تاثر ان اداروں سے والدین اور سٹوڈنٹس کو دور رکھ رہے ہیں کہ یہ ادارے پوزیشنیں نہیں لیتے ہمیں حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ ہمارے کئی ادارے اپنی مثال آپ ہیں اور انہوں نے اس صوبے کو بہترین بیورو کریٹس اور نمایاں شخصیات دے رکھی ہیں سرکاری اداروں کی ساکھ کو بہتر بنانا حکومت کی اولین ذمہ داری بننی چاہئے ورنہ دوسری صورت میں والدین اور سٹوڈنٹس کیلئے ان پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا اور ہمارا تعلیمی ڈھانچہ اس سے بری طرح متاثر ہوگا مشاہدے میں آیا ہے کہ کووڈ19 کے دوران بھی بعض نجی ادارے رعایت دینے کے حکومتی فیصلوں اور اقدامات پر عمل کرنے سے گریزاں رہے اسلئے حکومت اور اسکی متعلقہ اتھارٹی کا فرض بنتا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں کو بعض شرائط اور رعایتوں کا پابند بنائیں۔ دوسری طرف سرکاری اداروں میں سیلف فنانس کا نظام روز بروز بڑھتا جارہا ہے جبکہ فنڈز اور وسائل کی کمی کا جواز بناکر بعض اداروں کی فیسیں نجی اداروں کے برابر آگئی ہیں اس صورتحال کا بھی سخت نوٹس لینا چاہئے ورنہ جنگ زدہ صوبے کے متاثرہ عوام کیلئے اپنی اولاد کو تعلیم دلانا مشکل ہو جائے گا۔